Sunday, November 16, 2014

Allama Kausar Siddiqui on Muslim Saleem

Allama Kausar Siddiqui, bhopal

Thursday, November 6, 2014

MADAR-E-MEHRBAAN HAI AMU


MUSLIM SALEEM (6 NOVEMBER 2014 )
MAAYA-E-IZZ-O-SHAAN HAI AMU 
MERA SARA JAHAN HAI AMU 
MEIN JAHAN BHI HOON JEE RAHA HON ISAY
YANI MUJH MEIN RAWAN HAI AMU 
IS MEIN TABAAN HAIN SENKRON SOORAJ
ILM KI KEHKASHAN HAI AMU 
IS KI SHAFQAT MEIN BHAID NAHEEN
MADAR-E-MEHRBAAN HAI AMU 
NAZISH MULK, SHAN-E AALAM HAI
JISM DUNIYA HAI, JAAN HAI AMU 
TOO BHI MUSLIM KHIRAAJ DAY USKO
KYUNKAY TERI BHI MAAN HAI AMU 

Sunday, June 22, 2014

Poetic Compliments On Jashn e Muslim Saleem At Bhopal by Ahmad Ali Barqi Azmi (30th Dec 2012

by
jashn barqiBhopal meiN hai jashn jo Muslim Saleem ka

Hai Aiteraf un ke yeh kaar e azeem ka

Dehli meiN aa ke us ne khabr is ki mujh ko di

Ab arsh par dimaagh hai mauj e naseem ka

Rakhsh e qalam ke mere woh mahmez ban gaii

Woh kar rahi thi farz ada ek nadeem ka

Khamosh kyoN ho us ne kaha tum bhi kuchh likho

Kar lena zikr baad meiN daur e qadeem ka

Khidmatguzar e Urdu haii daur e jadeed meiN

Hai ilm kuchh to kaam karo ek aleem ka

MaiN ne kaha ki kaun use janta nahiN
Farzand e neknam hai wahid Saleem ka
“Khayyam e Nau” unhiN ki to vird e zabaaN hai aaj
Un par karam ho khuld meiN Rabb e Kareem ka
Bete pe baap ka hai asar kar raha hai jo
Hai dilnasheeN namoona yeh zauq e Saleem ka

Saturday, June 7, 2014

MUSLIM SALEEM GHAZAL - PARI KA US KAY UNDAR SE NIKALNA

PARI KA US KAY ANDAR SE NIKALNA
JAHAAN-E-KHWAAB BISTAR SE NIKALNA
DAHAKTI RET PAR PHIR MAIN NAY DEKHA
SAMANDAR MERI THOKAR SE NIKALNA
JO MUMKIN HO BUJHA DAY PYAAS MERI
BAJA HAI AAP GAUHAR SE NIKALNA
NA JAANAY KIS JAGAH MIL JAAYE DAHSHAT
DUA'EN PARH KE SAB GHAR SE NIKALNA
BHARAY GA PAIKAR-E-TASWEER MAIN KHOON
MAHABBAT KA TO MANZAR SE NIKALNA
JO MUMKIN HO TO PHIR DUNIYA HAI JANNAT
NADAAMAT NOK-E-KHANJAR SE NIKALNA
AJAB ASHA'AR MUSLIM NAY KAHE HAIN
KE JAISE AAB PATTHAR SE NIKALNA

Wednesday, May 14, 2014

Erum Zehra on Dr. Saleem Wahid Saleem

بقائے دوام کا تاجدار۔ڈاکٹر سلیم واحد سلیم
ارم زہراء۔کراچی
وہ کیا امور ہیں جن کی وجہ سے تخلیق کار بقائے دوام کا تاج سجا کر شہرتِ عام کے دربار میں زرنگار مسند پر متمکن نظر آتا ہے، کن خصوصیات کی بناء پر وہ معاصرین سے ممتاز قرار پاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں لا تعداد لکھنے والے رزقِ ہوا ثابت ہوتے ہیں؟
میری نظر میں جتنی بڑی تخلیقی شخصیت ، اتنا ہی بڑا تخلیق کار، اتنا ہی بڑا ثر اور اتنی ہی تاثیر ۔ لیکن اسکے باوجود با صلاحیت تخلیق کاروں کی اکثریت خود کو منوانے میں ناکام رہی ہے جبکہ ایک جریدۂِ عالم پر اپنا نام سنہری حروف میں لکھوا لیتا ہے۔ اور وہ نام ہے ڈاکٹر سلیم واحد سلیم۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم اپنے قلمی سفر کی ابتداء سے لے کر آخر ی سانس تک مملکتِ شعروسخن کی گلیوں کو اپنے فن کی خوشبو سے مہکاتے رہے۔
میں نے جب ان کی کلیات کا بغور مطالعہ کیا تو جانا کہ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم خاموشی سے اردو اد ب کی بیش بہا خدمات انجام دے رہے تھے۔ انھوں نے بے حد لگن کے ساتھ اپنے جنوں کی کرشمی سازیوں سے بازار عقل کو روشن کی تدبیریں کی ہیں۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کے کلام میں داخلی اور خارجی رنگوں کی منظر کشی جمالیات کی ایک انوکھی چھب میں ڈھل کر ہمارے احساسات میں حزن و طرب اور نشاط و ملال کے گہرے تاثرات نقش کرتی ہے۔ ان کی شخصیت میں ہنگامہ خیزیاں اس قدر تہہ در تہہ ہیں کہ انکے اندر جھانکتے ہوئے سانسیں بے ترتیب ہونے لگتی ہیں۔ میری بساط ہی کیا میں تو ابھی نو واردانِ شہرِ ادب میں ہوں۔ اسے لئے ابتداء ہی سے اقرار کرتی چلوں میں اپنی مبتدیانہ نظر کی رسائی کے مطابق تاثرات تک محدود ہوں۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم پیدائش کے بعد ۱۱؍ برس تک ایران میں مقیم رہے ۔ اس لئے ان کو فارسی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور حاصل تھا جبکہ اردو انگریزی، عربی ،پنجابی، کشمیری اور ہندی انھوں نے ہندوستان آکر سیکھیں۔ چونکہ فارسی آپ کی مادری زبان تھی اس لئے کلیات میں اردو غزلیات کے ساتھ فارسی کلام بھی نمایاں ہے۔ ساتھ ہی عقل کو حیران کردینے والی آپ کو کاوش ’’خیام بنام خیامِ نو‘‘ میں عمر خیام کی رباعیوں کا منظوم اردوترجمہ پڑھا۔ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم نے اپنی جدت طرازی اور فنّی مہارت سے عمر خیام کی شعری دنیا میں نئی جان ڈال دی ہے۔علاوہ ازیں آپ کی کاوشوں میں تزکِ جہانگیری و دیگر مشاہیر کی تخلیقات کے ترجمے بھی شامل ہیں جن میں شیکسپئر کے ڈرامے ہیملیٹ کے ایکٹ ۳ منظر ۴، رابرٹ فروسٹ ، ایملی دکنسن، ڈبلو۔ایم ۔ اوڈن، ماؤزے تنگ وغیرہم نظموں و مختلف زبانوں کے گیتوں کے منظوم تراجم شامل ہیں۔
ان کی یہ ہنگامہ زندگی کی آخری سانس تک جاری رہیں۔وہ جہاں اقتدار کے قلعہ کی فصیلوں پر کمند ڈالتے رہے وہیں اپنے محبوب کو لبھانے کے لیے تمام تر مروجہ اور غیر مروجہ ترکیبیں بھی آزماتے رہے۔ ساتھ ہی انقلاب کی لا طبقاتی نظام کی باتیں بھی کرتے رہے جس کا نتیجہ صدر ایوب کے آمرانہ دورِ حکومت کے خلاف معرکۃ الاراء نظم کی اشاعت کی صورت میں موجود ہے۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کا اپنے نظریات و افکار، مغربی تہذیب اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف قلمی جہاد ابھی جاری تھا کہ انھوں نے ناقابلِ فراموش آخری تحریر اپنے قدردانوں کے حوالے کر دی۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم رقم طراز ہیں ’’اگر بعض طنز نگاروں کا یہ کہنا حقیقت پر مبنی ہے کہ بہترین طنز آنسوؤں کے سرچشمے سے ابھرتا ہے تو کہنا بھی غلط نہیں کہ مسرت و سرخوشی کی تندو تیز لہریں غم کے سمندر سے ہی اٹھتی ہیں اور انسان کوشش سے غم کو خوشی میں بدل سکتا ہے۔ میں نے اپنی اسی بات کو سچ کرنے کے لیے عمر خیام کا یہ منظوم ترجمہ کیا ہے اوریہ ترجمہ اگر میری زندگی شاہدوشراب اور مطرب و ساقی سے کوسوں دور ہے۔‘‘ اور پھر اسی کشمکش کے دوران ڈاکٹر سلیم واحد سلیم ایک دن اپنے چاہنے والوں کو اپنی پرماجرا یادوں کے انبوہ میں چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔
انکی اس خواہش کی تکمیل کا سہرا ان کے صاحبزادہ مسلم سلیم کے سر جاتا ہے کہ چراغ سے چراغ جلنے کی روایت ادب کی ابتدائے آفرینش سے چلی آ رہی ہے۔ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم نے عمر خیام کی رباعیات کو اپنی فکری صلاحیت سے نئی تاثیر بخشی ہے جس کی بناء پر عمر خیام کی نہ سمجھ میں آنے والی شاعری کو نئی زندگی مل گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
عمر خیام
نیکی و بدی کہ در نہادِ بشر است
شادی و غمی کہ در قضا وقدر است
با چرغ مکن حوالہ کاندر رہِ عقل
چرغ از تو ہزار بار بیچارہ تر است
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم
نیکی و بدی ہستی کے دو رخ، آئینۂ دل کے اندر ہیں
آئینِ قضا و قدر یہاں کب سعیِ بشر سے باہر ہیں
یہ نکتہِ عقل وصداقت ہے انسان کے بس میں فطرت ہے
تقدیروقضا، تسلیم ورضا، عیاروں کے اپنے چکر ہیں
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کا یقیناًیہ تخلیقی کارنامہ ہے۔قاری چاہے کسی بھی درجہ کا ہو اس کے لیے اس منظوم ترجمے کے سحر سے بچنا مشکل ہے۔ اسی طرح اگر میں ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کی اردو غزلیات پر روشنی ڈالوں تو انکی شاعری نوجوان نسل کے لیے بے پناہ کشش رکھتی ہے۔
ہمارے لہجے میں گو تلخئِ حیات بھی تھی
مگر نظر میں محبت کی کائنات بھی تھی
حجابِ قربت و دوری اٹھے ہوئے سے تھے
تمھارے ہجر کی راتوں میں ایسی رات بھی تھی
سلگ سلگ کے ترے غم میں جل رہا ہوں میں
فنا کے سانچے میں چپ چاپ ڈھل رہا ہوں میں
کسے یہ ہوش کہ منزل کب آئے گی لیکن
ترے خیال میں گم ہو کے چل رہا ہوں میں
اسلوب کی جمالیات ، صوتی اور معنوی حسن کی حامل نئی دلکش تراکیب اور خیال کی مناسبت سے بحور کا انتخاب ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کی شخصیت میں جمال پر مبنی ملتی ہے ان کی غزل بھی اس کا آئین قرار پاتی ہے۔
رخ سے کسی نے پردۂِ حائل ہٹا دیا
اب جز نگاہِ شوق کوئی درمیاں نہیں
مصروف سجدہ ہائے مسلسل ہے کیوں سلیم
یہ جلوہ گاہِ حشر ہے کوئے بتاں نہیں

فریبِ پیہم غرورِ محکم شرستِ سرمایہ دار میں ہے
علاج اس شیطنت کا محنت کشوں کے بھرپور وار میں ہے
یہ آسماں بوس قصر جن میں چراغ جلتے ہیں معصیت کے
مٹا کے رکھ دو انھیں کہ مدت سے وقت اس انتظار میں ہے
اردو، فارسی اور عربی ادب اور لسانیات کے عمیق مطالعے نے ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کو یہ اعجاز بھی عطا ء کیا ہے کہ ان کی تراشیدہ تراکیب بھرپور مفہوم اور تاثیر کے ساتھ قاری کو منتقل ہوتی ہیں۔جب وہ محبوبہ کو رام کرنے کے لیے قلم اٹھاتے ہیں تو ان کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ موم کی طرح پگھلتے محسوس ہوتے ہیں اور جب وہ ایک باغی کے قالب میں نمودار ہوتے ہیں تو شیخ و برہمن اور ان کے اتحادی اہل حکم کے سروں پر ان کے اشعار گرز بن کر برستے ہیں اور اتنے خوبصورت انداز میں کہ ہر رنگ اورکیفیت میں جمالیاتی عنصر ان کے اشعار میں امڈتا محسوس ہوتا ہے۔

خود فراموشی کی لے میں جب بھی ڈھل جاتا ہے دل
جانے کس جادو سے عکسِ یار بن جاتا ہے دل
کون بتلائے کہاں ہے اب حدِ وصل و فراق
دھڑکنوں میں تیری ہی آواز بن جاتا ہے دل

ابھی نو خیز کلیوں کی طرف نظریں اٹھائی تھیں
ادھر اک گل ادھرکوئی شگوفہ شاخ سے ٹوٹا
سراپا جو لطافت تھی، جو رنگت تھی، جو نکہت تھی
مقدر اپنا کتنی نرم و نازک چیز سےُ پھوٹا
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کے کلام میں ایک ہی رنگ کے اشعار کی کثرت ملتی ہے۔ ان کے الفاظ ایک شوخ ادا کے ساتھ موم کی طرح لوچ دے کر ایک دلکش رنگ اور آہنگ پیدا کرنے میں بھی اپنی مثال آپہیں۔ ان کے اشعار میں غمِ دوراں دھڑکتا ہوا ملتا ہے تو کبھی عاشقی میں اپی خودی کو برقرار رکھنے کا منفرد اظہار۔۔!
جنوں کی دھن میں ہر پتھر کو ہم نے سنگِ در جانا
کوئی بھی رہگزر ہو ہم نے تیری رہگزر جانا
سلیم اک عمر گذری ہے بیانِ آرزو کرتے
یہ قصہ کتنا طولانی تھا لیکن مختصر جانا

دل ہو نہ سکا مائل رنگینئ دنیا
یہ طائرِ ہشیار تہہِ دام نہ آیا
جب بزم میں گردش میں ہوئے جام و صراحی
پھر تذکرۂِ گردشِ ایام نہ آیا

حرم و دیر کا پابند نہیں اپنا دل
تیرے جلوے نظر آتے ہیں جدھر جاتا ہے
لطفِ ہستی وہی دنیا میں اٹھاتا ہے سلیم
جو خطرگہ میں بھی بے خوف و خطر جاتا ہے
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم ایک زندہ دل شاعر تھے۔ ان کے استعارے موجودہ دور کے تناظر میں بھی با معنی معلوم ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سرنگ کتنی تاریک اور طویل کیوں نہ ہو مگر اس کے اختتام پر روشنی کا دائر ہ استقبال کرتا ہے۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم ایک ادبی گھرانے سے جس قلمی سفر پر نکلے تھے وہ قدم قدم پر وقت کی مصلحت پسندی کا سامنا کرتا ہوا حق کی خاطر لڑتا ہوآج پوری دنیا کا سفر طے کر چکا ہے۔آج ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کا نام ادبی افق پر چمکتے دمکتے چاند کی مانند ہے۔
ان کی جنوں خیز قلمی کاوشوں کی دھن پر میں جس طرح سر دھنتی رہی اور والہانہ رقص کرتی سوچوں کے ساتھ صفحات در صٖفحات آگے بڑھتی رہی تو مجھے اب یہ خیال شدت سے ستا رہا ہے کہ یقیناًوہ ابھی ادب کے میدان میں ان گنت مسائل سلجھانے کی کوششوں میں محو تھے کہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مجھے انکے احساسات ان کے فرزند مسلم سلیم کی شخصیت میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ یقیناًآج مسلم سلیم اپنے والد گرامی کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے موجودہ عہد کے ترجمان ہیں۔ میری نیک تمنائیں ہمیشہ انکے ساتھ ہیں۔
ارم زہرا
۱۲ مئی ۲۰۱۴
کراچی، پاکستان

Indian Muslim Legends - Muslim Saleem

http://indianmuslimlegends.blogspot.in/2013/09/436-muslim-saleem.html?showComment=1398220241297#c9193788099551253559

Wednesday, 9 April 2014

MUSLIM SALEEM - Do ashaar


 ULFAT MAIN MUBTALAA THAA TO MUHLAT NAHEEN MILI
 

NAFRAT KE WAASTE MUJHAY FURSAT NAHEEN MILI

 

AAKHIRI HAYAAT PAAYEE JAHANNAM KI AAG MAIN


KHUD KUSH NAY LAKH CHAHA, SHAHADAT NAHEEN MILI

Ghazal - Muslim Saleem

SHAAKH-E-IMKAAN PAR GUL KHILA HAI
 
KOI HANS KAR MUJHAY DEKHTA HAI


DAUR-E-HAAZIR KA YEH MAAJRAA HAI
 
DAHN-E-SHAITAAN PE NAAM-E-KHUDA HAI


MUNTHAB KHUD ANDHERA KIYAA HAI
 
AUR PHIR RAUSHNI SE GILAA HAI


SAANP KA AB TO BACHNAA HAI MUSHKIL
 
KOI INSAAN USAY DAS GAYAA HAI

Thursday, 6 February 2014

Muslim Saleem – ghazal – adaz hain haan kehne ke….


Muslim Saleem Ghazal Feb 4, 2014 
Andaaz hain haan kehne ke aakhir to sabhi naa
Main haan hi samajhta hoon jo kehta kabhi naa
Ai zeest miri tu isi ummeed pay jeena
Utray ga haqeeqat main kabhi khwaab ka zeena
Sairaab ho ye rooh to pur noor ho seena
Ho meharbaan ham par bhi mahabbat ki haseena
Har dam ho khayaal uska mujhe roz-o-shabeena
Har maah ho us maah ki ulfat ka maheena
Muslim tiray maddah hain naa-beena-o-beena
Khoob aata hai izhaar ka tujhko bhi qareena

Monday, 27 January 2014

TRIBUTES TO MUSLIM SALEEM BY ZAHINA SIDDIQUI

Zahin Siddui on Muslim_SaleemTRIBUTES TO MUSLIM SALEEM
BY ZAHINA SIDDIQUI, ALL-INDIA RADIO,
URDU MAJLIS, NEW DELHI
HUMDAM HO HUM KHAYAL HO MUSLIM SALEEM TUM , ,,,,,,,
ULFAT KI EK MISAAL HO MUSLIM SALEEM TUM .
JISKA NAHIN JAHANE ADAB MAIN KOI JAWAB , ,,,,,,
AISA HI EK SAWAL HO MUSLIM SALEEM TUM .
TUM SACHCHE QADERDAAN HO URDU ZABAAN KE , ,,,,,,,,,
INSAAN BA KAMAAL HO MUSLIM SALEEM TUM .
ARBAABE ILMO FUN KI NIGAHON MAIN AAJKAL , ,,,,,,,,,
EK HUSN HO JAMAAL HO MUSLIM SALEEM TUM .
KHILTE HAIN JISPE GHUNCHE WAFAON KE PYAR KE , ,,,,,,
PHOOLON KI AISI DAAL HO MUSLIM SALEEM TUM .
BUJHTE HUYE CHIRAAGH JALANE KE WASTE , ,,,,,,,,,
IK NOOR-E-LAA ZAWAAL MUSLIM SALEEM TUM .
AB TO KARO YAQEEN ZAHINA KI BAAT PAR , ,,,,,,,,,
SHAIR KA EK KHAYAL HO MUSLIM SALEEM TUM .

Monday, 13 January 2014

NAZRANA-E-AQEEDAT BARAI MUSLIM SALEEM SB: AUWWAL SANGRAMPURI

NAZRANA-E-AQEEDAT BARAI MUSLIM SALEEM SB
AUWWAL SANGRAMPURI
JEDDA, SAUDI ARABAI
HUSN-E-SUKHAN MAIN JO YE TIRAY INSIJAAM HAI
SHAHID HAI, KOI BHI NA TIRAA HAM-MAQAAM HAI
SAARE FUSOON-NIGAAR YE KARTE HAIN AITIRAAF
AB REEKHTE KA TOO HI JAHAAN MAIN IMAAM HAI
BARQ-E-SUKHAN HAI TERI ZIYAA-BAAR HAR TARAF
DAANISH MAIN TERI MEHR-E-SUKHAN TEZ-GAAM HAI
AHL-E-ADAB NAY TUJHKO WO MANSAB ATAA KIYA
SHE’RAA KO JO NUJOOM MAIN HAASIL MAQAAM HAI
TERAY SUKHAN KI FIKR SAY HAM PAR AYAAN HAI YEH
BAAM-E-FALAK KO CHOOMTA TERAA KALAAM HAI
MUSLIM SALEEM SAHIB-E-QALB-E-SALEEM HAIN
UNKA RUKH-E-HASEEN BHI MAAH-E-TAMAAM HAI
MERI DUA HAI HAR KOI HO US SAY MUSTAFEED
URDU ZABAAN PAY AAP KA JO FAIZ-E-AAM HAI
TERAY MURASHSHAHAAT-E-QALAM HAMARA DIL
DAST-E-NAZAR SAY CHOOM KAY KARTA SALAAM HAI
*******************************************
SHE’RAA= NORTH STAR
Auwwal design 1
About these ads

Friday, 10 January 2014

GRAND FELICITATION TO DR SHAHZAD RIZVI AT BHOPAL Part 1

ڈاکٹر شہزاد رضوی اور امریکہ میں اردو ادب کی قدآور شخصیت :مسلم سلیم
بھوپال کے فر زند کو پروفیسر آفاق احمد کا بھی خراج: شاندار استقبالیہ منعقد

بھوپال: ۲۹؍ دسمبر ۲۰۱۳واشنگٹن میں مقیم مدھیہ پردیش اور بھوپال کے عظیم فرزند مشہور شاعر اور ناول نگار ڈاکٹر شہزاد رضوی کو ہم سخن ویلفئر سوسائٹی و کھوج خبر نیوز ڈاٹ کام کی جانب سے شاندار استقبالیہ دیا گیا۔ اس موقعہ پرجناب مسلم سلیم نے ڈاکٹر رضوی کو امریکہ میں اردو ادب کی قدآور شخصیت سے تعبیر کیا۔ مہمانِ خصوصی پروفسر آفاق احمد نے بھی ڈاکٹر رضوی کی ادبی خدمات کو سراہا۔ اس سے قبل مسلم سلیم اور پروفسر آفاق احمد نے ڈاکٹر شہزاد رضوی کو ’’فخر بھوپال ‘‘ ٹرافی پیش کی۔ ہم سخن کے سکریٹری جناب عبدالاحد فرحان نے ڈاکٹر رضوی کو منظوم سپاس نامہ پیش کیا دہلی کے مشہور شاعر ڈاکٹر احمد علی برقی ؔ اعظمی نے تحریر کیا تھا۔ ڈاکٹر رضوی کی اہلیہ محترمہ رابعہ رضوی اور دختر ممتاز رضوی بھی اسٹیج پر موجود تھیں۔ پروگرام کا آغاز گلوکار جناب یعقوب ملک نے مسلم سلیم کی تحریر کردہ نعت سے کیا۔
جناب مسلم سلیم نے کہا کہ فی زمانہ ایک خانوادہ امریکہ میں اردو ادب کی سب سے زیادہ خدمت انجام دے رہا ہے جسمیں ڈاکٹر شہزاد رضوی ، انکی ہمشیرہ ڈاکٹر عمرانہ نشتر خیرآبادی ، ناہید نشترخیرآبادی اورر خسانہ وسیم اور برادرِ خورد سید ضیا خیرآبادی شامل ہیں۔ان کے والد یادگار حسین نشتر خیرابادی، والدہ محترمہ سیدہ سرفراز فاطمہ نشتر اور ہمشیرہ سیدہ سہیلہ خیرآبادی بھی اچھے سخنور تھے۔ڈاکٹر شہزاد رضوی ۱۹۶۴ء میں عالم شباب میں امریکہ چلے گئے۔ وہاں انہوں نے مختلف یونیورسٹیوں میں ا علیٰ تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے پروفیسر ہوگئے۔ اب وہ امریکی شہریت حاصل کرکے واشنگٹن میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ عرصہ سے مقیم ہیں۔
جناب مسلم سلیم نے بتایا کہ اردو کے علاوہ ڈاکٹر رضوی انگریزی میں بھی شاعری کرتے ہیں۔ آپ نے انگریزی میں کہانیاں اور ناول لکھنے میں بھی کافی شہرت حاصل کی ہے اور ان کے ناول Kahany.orgپر دیکھے جاسکتے ہیں یا amazom.comسے دستیاب ہوسکتے ہیں۔جناب مسلم سلیم نے اپنے مقالے میں امریکہ میں اردو ادب اور تدریس پر بھی سیر حاصل روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر شہزاد رضوی کی حیات و کمالات پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر آفاق احمد نے بتایا کہ ڈاکٹر رضوی نے دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ۔ انہوں نے موسم گرما کے دوران آکسفورڈ، سوربون(فرانس) اور لندن میں جاکر کورس کئے اور اسی دوران پورے یوروپ کا سفر بھی کیا۔صدر ریگن کے دوران حکومت ڈاکٹر رضوی نے ایوان صدر میں مترجم کی خدمات انجام دیں اور مسز ریگن کے ساتھ بحیثیت مترجم ان کے ہوائی جہاز میں میں سفر کرنے کا موقع بھی ملا، اس دوران میں امریکہ کی مشہور شخصیتوں، جیسے کہ ہنرسی کسنجر، افسران اور اداکار ان سے ملاقات ہوئی۔
پروفیسر آفاق احمد نے بتایا کہ ڈاکٹر شہزاد رضوی وہ اپنی شاعری میں روایتی موضوعات، واعظ، ساقی اور محبوب کی جفاکاری پر نہیں لکھتے۔ ان کی شاعری کے موضوع زندگی اور عالمی مسائل ہوتے ہیں جن سے آج انسان دوچار ہے۔ وہ اپنی شاعری سے مذہبی تفریق اور تعصب ، نسلی امتیاز اور قبائلی اور قومی رسہ کشی اور تصادم کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ بڑی آرزو ہے کہ دہشت گردی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے اور دنیا کے لوگوں میں ہم آہنگی اور بھائی چارہ پیدا ہوجائے۔ ڈاکٹر شہزاد رضوی صاحب اب تک ۱۲؍ ناول انگریزی میں تحریر کر چکے ہیں جنکے عنوان یہ ہیں۔.ان میں سے دو ناولوں ’’د ا لاسٹ ریسیڈینٹ ‘‘ اور ’’بہائنڈ د ا ویل‘‘ بھوپال کے پس منظر میں تحریر کئے گئے ہیں۔لیکن یہ مکمل طور سے فکتشنل ہیں اور انکابھوپال کے نوابی خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اپنے خطاب میں ڈاکٹر شہزاد رضوی نے اراکینِ ہم سخن ویلفئر سوسائٹی و کھوج خبر نیوز ڈاٹ کام کا شکریہ ادا کیا۔ڈاکٹر رضوی نے بتایا کہ ان کی پیدائش۲۸فروری ۱۹۳۷ء لشکر گوالیار میں ہوئی جہاں ان کے دادا خان بہادر حضرت مضطر خیرآبادی ایک زمانے میں جج تھے۔ مضطر خیرآبادی علامہ فضل حق خیرآبادی کے نواسے تھے ۔آپ کے خاندان کا ہندوستان کی جنگِ آازدی میں بھی اہم حصہ رہا ہے۔ آپ کے پرنانا حضرت فضلِ حق خیرابادی نے انگریزوں کے خلاف زبردست مہم چلائی تھی جسکی پاداش میں انھیں کالے پانی کی سزا دی گئی تھی اور وہیں انڈومان میں آپ کا انتقال ہو ا تھا۔ڈاکٹر رضوی کی والدہ محترمہ سیدہ سرفراز فاطمہ نشتر کا تعلق بھوپال کے ایک جاگیردار خاندان سے ہے۔ ڈاکٹر رضوی نے حمیدیہ کالج بھوپال سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ سیفیہ کالج میں لیکچرر رہے۔ اس کے بعد ایک اور ایم اے کی ڈگری انگریزی ادب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی اور پھر امریکہ چلے گئے۔
اس موقعہ پر ڈاکٹر شہزاد رضوی صاحب نے اپنی متعدد نثری نظموں سے بھی سامعین کو نوازا۔ ڈاکٹر رضوی نے مسلم سلیم کو اردو کے ایک بڑے شاعر اور ادیب سے تعبیر کیا۔ انھوں نے کہا کہ جناب مسلم سلیم انٹرنیٹ کے ذریعے بھی اردو کی بیش بہا خدمت انجام دے رہے ہیں۔
اس دوران رائسین سے تشریف لائے جناب حاجی میاں نے ڈ ایک بیش قیمت قلم اور پروفیسر مجید خاں و ڈاکٹر اعظم نے اپنی کتابیں اکٹر شہزاد رضوی کو پیش کیں۔
شروعات میں کھوج خبر نیوز ڈاٹ کا م کے ایڈیٹر جناب عطاء ا ﷲ فیضان ، ہم سخن کے صدر جناب شارق علی ، جناب بسید فیضان علی، ڈاکٹر انیس سلطانہ ، محترمہ رشدہ جمیل اور جناب مظفر اقبال صدیقی نے مہمانان کی گلپوشی کی اور ہم سخن کے سکریٹری جناب عبدالاحد فرحان نے ڈاکٹر شہزاد رضوی کو منظوم سپاسنامہ پیش کیا۔ جناب سلیم قریشی صاحب سے کہ اظہار خیال فرمایا۔
تقریب کی نظامت خوش فکر شاعر اور ادیب ڈاکٹر اعظم نے فرمائی۔ آپ ہی نے اظہار تشکر بھی کیا۔

Thursday, 9 January 2014

Gumgashta alfaz-1



 Urdu bahut wasee zabaan hai. Yeh hamaari ghalati hai ke ham iske bahut say alfaaz ko bhoolte jaa rahe rahe hain. Main kucch aise alfaz say aapko rooshanaas karaana chahta hoon. Shayad kisi kaam aaye.
Nafri
Aaj ham ko lagta hai ke English alfaz personnel aur manpower ke liye Urdu main koi lafz naheen hai to jaan len ke Urdu main lafz Nafri (jo Nafar=Fard se musthaq hai) sadiyon say mustamal hai. Is lafz ka istemal fauj aur police main bataur-e-khaas kiya jaata raha hai. Lekin ab log is say kam hi waaqif hain. (Muslim Saleem)

Monday, 6 January 2014

EK SHER – MUSLIM SALEEM – LAMHA-E-WASL

Ek sher lamha e wasl
LAMHA-E-WASL HAI YEH, LAMHA-E-FARYAAD NAHEEN
AA GAYE TUM TO HAMEIN KOI GILAA YAAD NAHEEN

MUSLIM SALEEM – EK SHER USAY PYAAR KAR LOON


 Ek sher usay payaar kar loon 
MUSLIM SALEEM – EK SHER
USAY PYAR KAR LOON YE JI CHAHTA HAI
MIRAA ISHQ BHI ZINDAGI CHAHTA HAI

Monday, 9 December 2013

MUSLIM SALEEM - AFSAANA - NANGI SADAK PAR - AWARDED IN AMU

MY AFSAANA - NANGI SADAK PAR WAS AWARDED IN A COMPETITION AT AMU IN 1972. THE PRIZE WAS GIVEN AWAY BY ASMAT CHUGHTAI.

Monday, 2 December 2013

Saturday, 30 November 2013

NAZRANA-E-AQEEDAT BARAI MUSLIM SALEEM SAHIB - SHAIR: TARIQUE MOHIUDDIN, PATNA, BIHAR, INDIA

 KAARWAN-E-ADAB
PAASBAN-E-ADAB
 DASTAN-E-ADAB
TU NISHAN-E-DAB 
SHAIR-E-NEK NAAM
TUJHKO LAKHON SALAAM
 TERI TAHREER KYA
TERI TAQREER KYA
TERI TAFSEER KYA
TERI TADBEER KYA
 EK KAUSAR KA JAAM
 SHAIR-E-NEK NAAM
 TU NAY RAKKHI HAI LAAJ
 SAR PE URDU KE TAAJ
MUHTARAM TU HAI AAJ
 PESH HAI YE KHIRAAJ 
TERA UNCHA MAQAAM
 SHAIR-E-NEK NAAM
SHAM’A BUJHTI RAHI
URDU LUTATI RAHI
JIS NE AAWAZ DI
WO TERI ZAAT THI
 TU MUJAHID MUDAAM
SHAIR-E-NEK NAAM 
MEER-E-SAANI HAI TU
 ROOD-E-MAANI HAI TU
JAWIDAANI HAI TU
EK KAHANI HAI TU  
TU GHAZAL KA IMAAM
 SHAIR-E-NEK NAAM
  BA AQEEDAT JABEEN, 
YOUN HI JHUKTI NAHEEN.
 HAI YEH DIL KO YAQEEN
AI MERE HUM NASHEEN
 KUCHH HAI RAAZ-E- DAWAAM,
 SHAIR-E- NEK NAAM.

Sunday, 24 November 2013

MUSLIM SALEEM – QATA – NOVEMBER 23, 2013

muslim saleem qata november 23, 2013 UrduMUSLIM SALEEM – QATA – NOVEMBER 23, 2013
KOI AB BAY SABAB MILTA NAHEEN HAI
WO AAYA HAI TO KOI KAAM HOGA!
LABON PAR YAA KOI FARYAD HOGI
NAHEEN TO KUCHH NAYA ILZAAM HOGA

Thursday, 7 November 2013

Article based on Muslim Saleem’s she’r by Zulqarnain Gillani


MUSLIM SALEEM KE SHE’R PAR SUDAIF GILLANI KA MAZMOON

 JANAB ZULQARNAIN (SUDAIF) GILLANI SB KOHNA MASHQ COLUMN NAWEES AUR SHAIR HAIN. AAP NAY MERA EK SHER “BACHCHON KO HONAY DEEJIYE EHSAAS DHOOP KA…….NASHVO NUMAA NA ROKIYE, SAAYA NA KEEJIYE KI BUNIYAD PAR SER HAASIL MAZMOON TAHREER KIYA HAI JO ROZNAMA SUBH-E-WATAN MAIN SHAYA HUA HAI. SUDAIF SB KA SHUKRIYA ADAA KARTE HUE MAZMOON AAP KI KHIDMAT MAIN PESH HAI.
Sudaif Zulqarnain Gillani

Wednesday, 6 November 2013

GREAT POET DR. AHMAD ALI BARQI AZMI PAYS TRIBUES TO MUSLIM SALEEM’S PARENTS


Ye aks waalidain ke Muslim Saleem Ke
Duniyaa-e-rang-o-boo main hain ek unki yadgaar
Thay waalid unke ek adeeb-e-sukhan shanaas
Muslim Saleem jinke hain farzand-e-honahaar
Umme Habiba waalida unki theen paakbaaz
Farzand jinke aaj jahaan main hain naamdaar
Hain apnay khandaaN ki wiraasat ke wo amen
Wird-e-zabaaN hain aaj sabhi jinke shahkaar
Waalid thay unke Farsi-daani main baa-kamaal
“Khayyam-e-Nau” say jinka tabhhur hai ashkaar
  • Khayyam-e-Nau” ka Muslim Saleem sb ke waalid nay Dr. Saleem Wahid Saleem sb nay Urdu main manzoom tarjuma kiya hai jise Saanjh publications Lahore nay shaya kiya hai.
  •  
ACKNOWLEDGEMENT (picture of Muslim Saleem, Dr. Saleem Wahid Saleem sb  and BegumUmmeHhabiba sahiba has been designed by noted poet and graphic artiste janab Mohd. Aleemullah Khan Waqaar sb.

NIKHARTI JAAYE HAI URDU,,,,,,,,, DUA -E- MUSLIM SAY,, GHAZAB HI DHAAYE HAI URDU,,,,,, DUA-E- MUSLIM SAY,, JAMAAYA DERAA HAI JAB SAY DAYAAR-E-MUSLIM MEIN,, SA’NWARTI JAAYE HAI URDU,,,,,, DUA -E- MUSLIM SAY,, KAHEEN NA THEHRE HAI AB RAAH MAIN TARAQQI KI NA LADKHADAAYE HAI URDU,,,,, DUA -E- MUSLIM SAY,, ZABAAN KI CHAASHNI,,,, ZEENAT BLOGON PAR DEKHEN,, CHAMAK DIKHAAYE HAI URDU,,,,, DUA -E- MUSLIM SAY,, HAR EK MAZHAB-O-FIRQE KE IS GULISTAAN MAIN NIKHAAR PAAYE HAI URDU,,,,,,,,, DUA -E- MUSLIM SAY,, HAI TEZ BAAD-E-MUKHAALIF BAHUT MAGAR AHMED* QADAM JAMAAYE HAI URDU,,,,,,,, DUA -E- MUSLIM SAY,

Monday, 28 October 2013

Tarique Mohiuddin tribute to Muslim Saleem

NAZR-E-MUSLIM SALEEM SB TARIQUE MUHIUDDNTARIQUE MOHIUDDIN’S TRIBUTE TO MUSLIM SALEEM
YEH WAQT, YEH ZAMANA HAI MUSLIN SALEEM KA,
AB HAR TARAF FASAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
KHANJAR KI NOK PER BHI YEH KAHTE HAIN HAQ KI BAAT,
HAR SHER QAATILAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
SAUDA, ZAFAR KE, ZAUQ KE SAB MU’TARIF HOYE,
HAR SHAKHS AB DEEWAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
QAARI KE DIL MAIN SEEDHI UTARTI HAI UNKI BAAT
WO RANG SHAYERANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
TAKH’EEL UNKI AUJ-E-SURAYYA SE HAI BULAND,
IK RANG AARIFAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
SADQE SALEEM WAHID* O ABDUL HAKEEM* KAY
ILM-O-ADAB GHARAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
TARIQUE KO ISHTIYAAQ-E-MULAQAAT HAI BAHUT
MADDAH GHAIBAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
++++++++++++++
1. Saleem Wahid* = Dr. Saleem Wahid Saleem waalid-e-mohtaram Muslim Saleem sb aur Khayyam-e-nau ke khaliq
2.  Abdul Hakim* = Dr. Khalifa Abdul Hakim = Dr. Saleem Wahid Saleem kea mm jinhon nay Fikr-e-Iqbal sameet Urdu main darjanon kitaaben tasneef keen.

NAZR-E-MUSLIM SALEEM SAHEB: AHMAD ALI KHA, RIYAD, SAUDI ARABIA

NAZR-E-MUSLIM SALEEM SAHEB: AHMAD ALI KHA, RIYAD, SAUDI ARABIA

Ahmad Ali Khan Muslim Saleem 3 HAR KAS-O-NAA KAS KO KAB MILTA HAI SHUHRAT KAA MAQAAM,,

KHIDMAT-E-URDU SAY PAAYA HAI YEH AZMAT KAA MAQAAM,,

DIL MAIN GHAR KAR LETE HAI, AISA HAI IZZAT KA MAQAAM

IS KAY AAGE KUCHH NAHEEN HAI JAAH-O-HASHMAT KA MAQAAM

RAAJ KARTI HAI DILON PAR GO NAHEEN HAIN TAKHT-O-TAAJ

KAM NAHEEN SHAHI SAY KUCHH BE-LAUS KHIDMAT KA MAQAAM

FIKR-O-FUN INSAAN KE CHHOO SAKTI KAISE AASMAN

SOCHIYE TO FIL HAQEEQAT HAI YEH HAIRAT KA MAQAAM

MERI QISMAT DEKHIYE HAIN RAHNUMA MUSLIM SALEEM

MAIN JAHAAN HOON AAJ AHMED, HAI SAADAT KA MAQAAM

Tuesday, 22 October 2013

NAZRANA-E-AQEEDAT BA-KHIDMAT MOHTARAM MUSLIM SALEEM SB : Tarique Muhiuddin, Patna India


Ik meer-e-kaarwaaN hain, adab ke hainshahsawaar

Baagh-e-sukhan hai jin ke sabab aaj laalazaar

Har soo jahaan mein chalti hai unki higuftugoo

Phailee hi unke kaam ki shohrat bhi chaarsoo.

Posheeda jo adab main hai sab hoga be-naqaab

Aflak pay hua hai namoodaar Aaftaab.

Unke hi dar pe meri jabeeN jhuk rahi haikyooN

Qadmon pay unke jaa ke nazar ruk rahi haikyooN

Urdu zabaaN mein ek dhadakta hua hai dil

Gulhaay-e-rang-o-boo ka haishehkaar-e-mustaqil.

Thursday, 17 October 2013

YADEN ALIGARH KI @@ MUSLIM SALEEM

یادیں علی گڑھ کی از مسلم سلیم
  • علی گڑھ میری سانسوں میں بسا ہے/؍ علی گڑھ میرے منہ سے بولتا ہے ؍/ جہاں جسکے سبب محوِ ثنا ہے ؍/ مجھے وہ سب علی گڑھ سے ملا ہے/ ؍ دل اپنا چھوڑ آیا ہوں وہاں میں/ ؍ وطن بھوپال بے شک ہو گیا ہے/ ؍ وہ میرس روڈ ہو یا قاضی پاڑہ ؍/ یہ دل اب بھی انھیں کو ڈھونڈتا ہے/ ؍ گلی کوچوں میں اسکے آنا جانا وہاں چوبیس برسوں تک رہا ہے/ ؍ جو ایم۔اے۔او سے اے۔ایم۔یو ہوا ہے/ ؍ وہ سیّد کاثوابِ جاریہ ہے/ ؍ اسے کہتے ہیں مسلم یونی ورسٹی/ ؍ یہاں سے علم کادریا بہا ہے/ ؍ سٹی اسکول کا بھی ذکر کردوں/ ؍ کہ جواک درسگاہِ بے بہا ہے/ ؍ یہیں پہلی غزل میں نے کہی تھی/ ؍ یہیں سے میرے فن کی ابتدا ہے /؍ اک ایم۔اے۔یو برانچ اسکول بھی تھا/ ؍ جو اب تعلیمِ نسواں دے رہا ہے/ ؍ مرے استاد تھے قیّوم صاحب/ ؍ انھیں سے علم کا تحفہ ملا ہے/ ؍چلو اب بات کرلیں کیمپس کی/ ؍ علاقہ یہ بہت ہی پر فضا ہے/ ؍ بہاریں آرٹس فیکلٹی کی مسلمؔ/
    ؍ انھیں سے باغِ جاں اب تک ہرا ہے۔

    علی گڑھ سے ہمارے خانوادے کا رشتہ میرے پرنانا سید عبدالباقی سے شروع ہوا۔ وہ محمڈن اینگلو اورئینٹل کالج کے ابتدائی ۵ طلبہ میں تھے اور

Saturday, 12 October 2013

SULMAN SADDIQUE’S TRIBUTE TO MUSLIM SALEEM



Sulman Saddique is an upcoming Urdu poet from Sialkot, Pakistan. He posted a qata on his facebook timeline recently. I came to know about it through another friend Anjum Bashrich sb several days later. Here is the qata:-
KHIDMAT-E-URDU HAI RAAH-E-MUSTAQEEM
ILM KA DARYA HAIN, LEHJA BHI HALEEM
SHAIRI AUR ZAAT DONON HAIN AZEEM
MOHTARAM WO DOST HAIN MUSLIM SALEEM

Friday, 11 October 2013

Muslim Saleem ki ghazal "qamat-o-qad" par sheri wa nasri tabsire

                                                           Muslim Saleem - ghazal

دریا ہے رواں خوں کا مرے قامت و قد میں
لے جانا لہو جب بھی کمی پاؤ رسد میں

کمرے میں ہوس کو تو چھپا سکتے ہو لیکن
یہ عشق ہے اور عشق ٹھہرتا نہیں حد میں

اک وہ ہی نہیں شہر میں مجرم تو بہت تھے
بس یہ ہے کہ وہ آگیا الزام کی زد میں

کیا اس نے چھپا رکھا ہے ہمدردی کے پیچھے
بو گل کی تو ہرگز نہیں گل پوش مدد میں

سرخی سے دمکنے لگا اشعار کا چہرہ
کچھ خون کیا صرف جو اظہار کی مد میں

تخلیق تو خود اپنی سند ہوتی ہے مسلم
نادان ہیں وہ لوگ جو الجھے ہیں سند میں
************ **************************************************
Facebook comments
**************************************************************
· 
· 
مسلم ہے بڑا پہلے ہی سے قامت و قد میں ۔ ۔ ۔ ۔
اب اور کیا ٹھہرائوں اسے منصب و حد میں ۔ ۔ ۔
۔میں بزم سخن میں اسے تسلیم کروں گا۔ ۔ ۔۔ ۔
آجائوں بلا سے کسی الزام کی زد میں ۔ ۔ ۔ ۔

Monday, 7 October 2013

Dr. Saleem Wahid Saleem Wahid Saleem sb ki ghazal par manzoom wa mansoor tabsire

  • ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کی غزل پر اہلِ نظر کے منظوم و منثور تبصرے

    جناب مسلم سلیم صاحب ! والدِ محترم کی شاہکار غزل زیرِ نظر ہے ، اس قدر پائے کی اور خوبصورت غزل پر مجھ جیسے طفلِ مکتب کا کچھ کہنا چھٹا منہ اور بڑی بات کے مصداق ہوگا تاہم میں اسے پڑھ کر بہت متاثر ہوا اور جو میرے دلی جزبات و کیفیات تھے انہیں میں فی البیہہ منظوم کر رہا ہوں قبول فرمایئے گ
    ا
    ۔ ’’ نذر انہ۶ عقیدت بحضور ڈاکٹر سلیم واحد سلیم مرحوم و مغفور ‘

    ‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سلیم واحد کی شاعری میں کمالِ فن بھی ہے زندگی بھی ۔ ۔ ۔ ۔
    نحسین خود تھے، سجی ہوئی ہے حسین رنگوں سے شاعری بھی ۔ ۔ ۔

Sunday, 6 October 2013

Dr Saleem Wahid Saleem - ghazal - Subh-e-shaam-e-alam

صبحِ شامِ الم
ڈاکٹر سلیمؔ واحد سلیم (والدِمحترم مسلمؔ سلیم)
کبھی ہیں گریاں کبھی ہیں خنداں کبھی ہے غم تو کبھی خوشی بھی
ہزار رنگوں میں رنگِ دنیا ہے زندگی کی ہما ہمی بھی
کچھ اس طرح سے گذر رہی ہے کچھ اس طرح سے گذر گئی بھی
کہ ہم نے رو رو کے شام کر دی جو صبحِ شامِ الم ہوئی بھی

وہ آج اس طرح یاد آئے کہ دل کو غم بھی ہے اور خوشی بھی
کرم بھی یاد آرہے ہیں ان کے نظر میں ہے ان کی برہمی بھی
ثبات غم کو نہیں میسر تو عارضی ہے شگفتگی بھی
ہمیشہ باقی نہیں رہیں گے مرا الم بھی تری خوشی بھی

ہیں جتنے خم سب کے سب پلادے شراب خانے میں مأ بہا دے
جب آج پینے پہ آگئے ہیں تو کیوں نہ پی لیں رہی سہی بھی
بچھڑ گئے جب تو یاد آیا بچھڑ ہی جانا تھا ہم کو اک دن
ہم اس طرح سے جدا بھی ہوں گے یہ دل نے سوچا نہ تھا کبھی بھی

وہی ہیں جانِ قرار و تسکیں جنھوں نے صبر و قرار لوٹا
غمِ محبت تری دہائی کہ رہزنی بھی ہے رہبری بھی
حدودِ منزل سے بڑھ گئے ہیں خیال ِ منزل میں بارہا ہم
سلیم ؔ منزل بکف رہی ہے ہماری ہر ایک گمرہی بھی

Friday, 4 October 2013

مسلم سلیم - ۲۱ویں صدی کا شاعر Muslim Saleem ----Ikkeesween Sadi ka Shair


مسلم سلیم - ۲۱ویں صدی کا شاعر
از ڈاکٹر شہزاد رضوی۔۔۔۔سابق پروفیسر ، واشنگٹن ، ڈی ۔سی ، یو۔ایس ۔اے
               ایک دن اچانک انٹرنیٹ سرفنگ کے دوران میری نگاہ ایک ویب سائٹ muslimsaleem.wordpress.com پر ٹھہر گئی ۔ یہ بھوپال میں مقیم شاعر ، افسانہ نگار اور صحافی مسلم سلیم کی ویب سائٹ تھی۔ میں کئی گھنٹوں تک اس بلاگ کی سرفنگ کرتا رہا۔ اس میں مسلم سلیم نے صرف اپنی شاعری اور شخصیت کے بارے میں ہی نہیں لکھا بلکہ اردو دنیا کے ہزار ہا شعراء و ادبا کی مختلف ڈائریکٹریز ترتیب دے کر تعارف و تصاویر پوسٹ کی ہیں۔ میرے نزدیک اردو دنیا میں اتنا بڑا کام پہلے کبھی نہیں ہوا۔ بعد میں پتہ چلا کہ مسلم سلیم نے khojkhabarnews.com, muslimsaleem.blogspot.com, poetswriters.blogspot.com, اور کئی دیگر ویب سائٹس کے ذریعہ بھی اردو کے اس بیش بہا اور مخلصانہ خدمت کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ بہر حال اس تحریر سے مسلم سلیم کی ویب سائیٹس کی تعریف مقصود نہیں بلکہ ان کی اس شاعری سے ہے جسکا بیشتر حصہ ۲۰ ویں صدی میں خلق ہوا لیکن جسے بجا طور پر ۲۱ویں صدی بلکہ اس سے بھی آگے کی شاعری کہا جا سکتا ہے۔
میں ان کی شاعری کے اس جدید لب و لہجہ سے اس قدر متاثر ہواکہ میں نے انٹرنیٹ پر انگریزی میں مسلم سلیم کی شاعری پر نہ صرف سیر حاصل مضامین تحریر کئے بلکہ ان کی کئی غزلوں کا انگریزی ترجمہ ء کل انٹر نیٹ پر پوسٹ کیا۔ میں نے اپنے ۲۴ اپریل، ۲۰۱۱ کے مضمون Muslim Saleem and revelation of his art میں لکھا تھا ’’ اگر بین الاقوامی اردو حلقہ مسلم سلیم کی شاعری کا حظ اٹھانے سے محروم رہ گیا تو یہ ایک از حد شرمناک بات ہوگی۔ مسلم سلیم شاعری برائے شاعری کے قائل نہیں۔ اور تبھی قلم اٹھاتے ہیں جب ان کے سینے میں موجزن جذبات ان کو تحریک دیتے ہیں اور وہ گزشتہ نصف صدی اور موجودہ صدی کے بحرانات و تجربات کو اس تحریک کی کڑی میں خوبصورتی اورچابکدستی سے پروتے چلے جاتے ہیں۔مسلم سلیم کے اشعارکو سرسری طور پر لینے والا خواہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو اس کے عمق سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا۔ زندگی بھر اسٹڈی روم میں بیٹھ کر مطالعہ کرنے والے جو سرد و گرم زمانہ چشیدہ نہ ہوں مسلم سلیم کی شاعری کی depth تک پہنچنے میں ہو سکتا ہے کہ ناکام ہو جائیں لیکن ہم جیسے لوگ جو زبردست جدو جہد کے بعد امریکہ، یوروپ، اور دیگر بیرونی ممالک میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں، مسلم سلیم کے فن اورتجربے کی گہرائی کو مسmiss نہیں کر سکتے۔‘‘
                اس سے قبل میں نے ۱۰ اپریل ،۲۰۱۱ کو تحریر کردہ اپنے مضمون Muslim Saleem:An Analysis میں مسلم سلیم کے بارے میں لکھا تھا۔
’’ مسلم سلیم کا تعلق اس نسل سے ہے جو آزادئ ہند کے فوراً بعد وجود میں آئی تھی ۔ تلاشِ ذات اس نسل کا سب سے اہم مسئلہ تھا اور اسکے لئے لمحہۂ فکریہ یہ تھا کہ برق رفتاری سے گزرتی جا رہی ۲۰ویں صدی میں وہ کیا اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہی وہ دور تھا جب مسلم سلیم پہلے علی گڑھ اور پھر الہٰ آباد یونیورسٹی میں اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور ہندی کی اپنی صلاحیتوں کو جلاِ دے رہے تھے۔ تحصیل علم کے دوران ہی مسلم سلیم نے معاشرہ کی انہی نئی لہروں کی اپنی شاعری اور افسانوں کا ایجنڈا بنا لیا تھا۔ گزشتہ ۳۰ برس کو دوران انگریزی، اردو اور ہندی میں صحافت سے ان کے قلم کی کاٹ اور بھی گہری ہو گئی ہے۔‘‘ ؂
میں اس مضمون میں مسلم سلیم کے اشعارصرف چند اشعار نقل کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی میرے خیالات سے متفق ہو جائیں گے۔ مسلم سلیم کو استعاروں اور علامتوں پر جو عبور حاصل ہے اس سے ان کی شاعری ازحد تہہ دار ہوگئی ہے۔ ایک ہی شعر سے معنیٰ و مفہوم کے سوتے پھوٹے پڑتے ہیں۔ ؂
دھوپ میں دیوار بھی تھی کسکو تھا اسکا خیال۔۔۔۔۔ استفادہ ساےۂِ دیوار سے سب نے کیا
یہ اس شخص کے المیہ اور بے چارگی کا پر اثر بیان ہے جس سے ایک زمانہ مستفید ہوتا ہے لیکن یا تو اس ایثار سے بے خبر ہے یا دیدہ ؤ دانستہ اس کی داد نہیں دیتا کہ اس نے لوگوں کو آلام و مصائب سے محفوظ رکھنے کے لئے آفات و کرب کا کس قدر سامنا کیا ہے اور وہ بھی کوئی شکوہ زبان پر لائے بغیر۔احسان ناشناسی اور بے قدری ہمارے دور کا ایک بڑا المیہ ہے اور غزل کے دو مصرعوں میں اسے اتنی چابکدستی اور فنّی مہارت کے ساتھ نظم کرنے پر مسلم سلیم بے شک داد کے مستحق ہیں۔ ؂
بچوں کو ہونے دیجئے احساس دھوپ کا
نشو و نما نہ کیجئے، سایہ نہ کیجئے
ایک بار پھر دھوپ اور سایہ کی علامتیں ایک بہترین شعر کی تخلیق میں ممد ہوئی ہیں۔ جدوجہد اور تجربات و حوادث زندگی میں آگے بڑھتے رہنے اور اسے سنوارنے کے لئے از حد ضروری ہیں۔ ضرورت سے زیادہ پدری یا مادری شفقت میں پلنے والے بچے زندگی میں ذہنی و شخصی ارتقاء کی کئی منازل طے کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس لئے تجربے ان کے لئے تریاق اور سایہ سنگِ راہ ہے۔ یہ مضمون غزل کے پیرائے میں مسلم سلیم سے پہلے کسی نے نہیں باندھا ہے۔ ؂
تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گے۔۔۔۔۔ میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی
اس شعر میں دھوپ کا لفظ تو نہیں لیکن اس کا شدید احساس موجود ہے۔ سایہ اور دیوار مل کر پھر جادو جگاتے ہیں اور ایک المیہ اے حسین پیرائے میں بیان ہو جاتا ہے۔ شاعر ایک ایسے شخص کی کیفےئات کو بیان کرتا ہے جو مسلسل طور پر اخوت، شفقت، دوستی اور کرم سے محروم ہے۔ یہ احساسِ محرومی تب اور بھی بڑھ جاتا ہے جب وہ کسی ایسے شخص کی طرف بڑھنے کی سعی کرتا ہے جس میں یہ اوصاف پائے جاتے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس شخص سے کچھ استفادہ کر سکے وہ شخص کوچ کر جاتا ہے اور طالبِ فیض تشنہ کا تشنہ رہ جاتا ہے۔ ؂
سائباں ساتھ کس کے چلے ہیں ۔۔۔۔۔پھر وہی دھوپ تھی، قافلہ تھا
قافلۂِ ذات کو تجربات و حوادث کی تیز دھوپ میں چلتے ہی رہنا پڑتا ہے کیونکہ محافظت اور تسکین دینے والے ایک حد تک ہی ساتھ دے سکتے ہیں اور رہگزارِ زیست میں ان سے صرف اسی قدر مستفید ہوا جاسکتا ہے جس طرح راہ میں کوئی سائبان یا کوئی سایہ مل جائے اور انسان کچھ دیر وہاں رک کر آرام کر لے۔ آگے کا سفر تو اسے سائبان سے آگے بڑھکر صعوبتوں اور دشواریوں کو جھیل کر ہی طے کرنا پڑیگا۔
یہ اشعار میں نے مسلم سلیم کے گذشتہ مجموعہ آمد آمد سے لئے تھے۔ اب میں ان کے زیرِ نظر مجموعہ سے منتخب چند تاریخ ساز اشعار کی نشاندہی کر رہا ہوں۔
بہار لائے تھے یہ انکا احترام کرو۔۔۔۔خزاں رسیدہ درختوں کو بھی سلام کرو
پاس ہو کے بھی ہم سے وہ خفا خفا سا ہے ۔۔۔۔۔دوریاں ہیں میلوں کی فاصلہ ذرا سا ہے
رنگ آتے جاتے ہیں کتنے اسکے چہرے پر۔۔۔۔۔حسن اسکا اب دیکھو جب کہ وہ خفا سا ہے
اس لئے جیت کر ہر اک میداں بڑھ گئے رزم گاہ سے آگے۔۔۔۔ہم نے اپنی نگاہ رکھی تھی دشمنوں کی نگاہ سے آگے
پہلے تھا ملک میں بس اک ظالم سب جسے بادشاہ کہتے تھے۔۔۔۔اب تو اپنے ہیں سینکڑوں آقا ظلم میں عالی جاہ سے آگے
کس قدر پانی ہے پہلے اس کا اندازہ کیا۔۔۔۔۔بند پھر اپنی مدد کا اس نے دروازہ کیا
دہکتی ریت پر پھر میں نے دیکھا۔۔۔۔سمندر میری ٹھوکر سے نکلنا
قوم کی زبوں حالی پر بھی مسلمؔ سلیم نے بے حد چابک دستی سے روشنی ڈالی ہے:۔
یاد ہے سارا جہاں بھول گئے ہیں خود کو۔۔۔۔۔سوچتے ہیں کہ کہاں بھول گئے ہیں خود کو
جیت لے گا ہمیں دشمن بڑی آسانی سے۔۔۔۔۔ہو گیا سب پہ عیاں بھول گئے ہیں خود کو
زیرِ نظر مجموعے میں مسلمؔ سلیم نے دہشت گردی کے خلاف کافی موثر اشعار شامل کئے ہیں۔یہاں میں اس موضوع پر انکی ایک مکمل غزال نما نظم نقل کر رہا ہوں:
ہو اگر عاجز تو پھر حاجت روا بنتے ہو کیوں۔۔۔۔کام ہے یہ تو خدا کا تم خدا بنتے ہو کیوں
درسِ رحمت بھول کر کیوں بن گئے بیدادگر۔۔۔۔۔سب کے حق میں پیکرِ جوروجفا بنتے ہو کیوں
ہر قدم کج فہمیاں ہیں، ہر قدم گمراہیاں۔۔۔۔۔حق شناس و حق نگر اور حق نما بنتے ہو کیوں
ہو اگر مقدور رکھّو ساتھ کوئی راہبر۔۔۔۔۔راہ گم گشتہ عزیزو! رہمنا بنتے ہو کیوں
فرض مسلمؔ پر قیامِ امن ہے یہ جان لو ۔۔۔۔۔۔یوں کھلونا بے جہت جذبات کا بنتے ہو کیوں
اسی موضوع پر چند اور اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ جانے کس جگہ مل جائے دہشت۔۔۔۔دعائیں پڑھ کے سب گھر سے نکلنا
بھرے گا پیکرِ تصویر میںِ خوں ۔۔۔۔۔محبت کا وہ منظر سے نکلنا
بہشت ملتی ہے دہشت سے اور تشدّد سے ۔۔۔۔۔نکال ڈالے دماغوں سے یہ سنک کوئی
اڑا کے اوروں کو خود کو بھی مار لیتے ہیں۔۔۔۔۔وہ سوچتے ہیں کہ اس میں ثواب ہوتا ہے
اے کشت و خون کے داعی ذرا بتا تو سہی ۔۔۔۔۔کہ ان دھماکوں سے کیا انقلاب ہوتا ہے
اس مجموعہ میں رومانی شاعری اور قطعات کی شمولیت بھی معنی خیز ہے کیونکہ پہلے مجموعے میں ان کی تعداد برائے نام تھیْ وہ مجھ کو سمجھنے میں جو ناکام رہا ہے ۔ ۔۔۔ ۔ خود مجھ پہ ہی اس جرم کا الزام رہا ہے
یہ جسم کرتا ہے اکثر بہت سوال تر۱ ۔۔۔ ۔۔ رگوں میں دوڑنے لگتا ہے جب خیال ترا
قدم بچا کے رکھوں میں اگر تو کیسے رکھوں ۔ ۔۔۔ہر ایک سمت تو پھیلا ہوا ہے جال ترا
تب مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے مخمل یاد کا ۔۔ ۔۔۔ سر پہ جب سایہ فگن ہوتا ہے بادل یاد کا
جان و دل میں جب مہک اٹھتا ہے صندل یاد کا۔۔۔۔ سو غموں کو دور کر دیتا ہے اک پل یاد کا
آج صندوق سے دیرینہ زمانے نکلے ۔۔۔۔۔ڈائری کھولی تو یادوں کے خزانے نکلے
ایسے ماضی کی پھواروں میں شرابور ہوئے۔۔۔۔ جیسے بچہ کوئی بارش میں نہانے نکلے
رات بھر چنتے ہیں اکثر لعل و گوہر خواب کے۔۔۔صبحدم روتے ہیں ہم ٹکڑے اٹھا کر خواب کے
خواب کی جانب چلے پیغام لے کر خواب کے۔۔۔۔یوں اڑے دل کی منڈیروں سے کبوتر خواب کے
جان و دل اپنے ہیں صدقے اس منور خواب کے ۔۔۔۔۔جاگتی آنکھوں میں رہنے دو وہ منظر خواب کے
مسلم سلیم نے مغربی ممالک اور میڈیا کی فحاشی اور غلط بیانی کا راز بھی فاش کیا ہے:
مغربی بازاریت کی دین یہ ہیجان ہے۔۔۔۔۔حسنِ نسواں اب فقط تفریح کا سامان ہے
مکر آرائش ہے اسکی،جھوٹ اسکی شان ہے۔۔۔۔۔مت بہک جانا، یہ گورا میڈیا شیطان ہے
خود تو گویا قتل و غارت، ظلم سے انجان ہے۔۔۔۔۔ ہر برائی کے لئے اسلام پر بہتان ہے
اُس کی ہرزہ گوئیوں پر مہرِ استحسان ہے ۔۔۔۔۔۔ ہم نے گر کچھ کہہ دیا تو ہر طرف طوفان ہے
حق پہ جینا ، حق پہ مر مٹنا ہی اسکی شان ہے۔۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے دہر میں مسلم ہی بس انسان ہے
مسلم سلیم کا تقریباً ہر شعر ایسی ہی تہہ داریوں سے مملو ہے اس کے لئے ایک علیحدہ کتاب درکار ہے اور اس مضمون کی طوالت کے خوف سے میں اسے یہیں ختم کرتا ہوں لیکن چلتے چلتے ایک بار پھر میں مسلم سلیم کی اردو ویب سائٹس اور ویب ڈائریکٹریز کا ذکر کروں گا اور یہ کہنے کی جسارت بھی کروں گا کہ اس کارنامہ کے سبب مسلم سلیم کو بابائے اردو مولوی عبدالحق کے پائے کی شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے۔

Sunday, 29 September 2013

Muslim Saleem – ghazal Sept 29, 2013

ghazal ke log
WO DOOR KAY HON DIWAANE, KE HON QAREEB KE LOG
HAIN MADHA-KHWAAN USI PAIKAR-E-AJEEB KE LOG

HAIN KAARZAAR KAI AUR BHI ZAMANAANE MAIN

HILAAL HI SAY ULAJHTAY HAIN KYOON SALEEB KE LOG

SARON KI GINTI NAY AAKHIR KIYA USAY RUSWAA

AMEER-E-SHEHR PAY BHAARI PADAY GHAREEB KE LOG

JAHAAN MAIN DHOOM HAI JINKI YARAF NIGAAHI KI

DIKHAYEE KYOON NAHEEN DETAY UNHEN QAREEB KAY LOG

GUL-E-KHAMOOSH KA DETAA NAHEEN HAI SAATH KOI

HAIN SAARE HAASHIYA-BARDAAR ANDALEEB KE LOG

NAZAR BACHA KAY HAM USDILRUBA SAY MIL AAYE

GALI MAIN GHOOMTAY PHIRTAY RAHE RAQEEB KAY LOG

WATAN SAY AAJ CHALAA HOON YE SOCH KAR MUSLIM

KAHEEN TOMUJH KO MILENGAY MERAY NASEEB KE LOG

Tuesday, 24 September 2013

Naqshband Qamar Bhopali ki manzoom tareekh "Hammasa" par ek taairna nazar: Muslim Saleem

نقشبند قمرؔ نقوی بھوپالی کی مایۂِ ناز تخلیق حمّاسہ جلد اوّل پر ایک طائرانہ نظر۔ مسلمؔ سلیم
تبصرے سے پہلے میں ایک وضاحت کردو کہ نقشبند قمرؔ نقوی بھوپال میں تولد ضرور ہوئے لیکن پاکستان ہجرت کرگئے اور اب ٹلسا، یو۔اس۔اے میں سکونت پذیر ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ وہ بھوپالی کہلا کر بھی اب بھوپالی نہیں ہیں جبکہ خادم بھوپال میں تولد نہ ہوکر بھی اب بھوپالی ہے۔ ایک اور اتفاق یہ ہے کہ منصب منزل جہاں نقشبند قمرؔ نقوی صاحب تولد ہوئے تھے میرے غریب خانے سے کچھ ہی فاصلے پر ہے اور میں دفتر آتے۔جاتے روز ادھر سے گذرتا ہوں۔ لیکن اس سے یہ عندیہ ہرگز نہیں لیا جائے کہ تبصرہ کا مقصد بھوپالیت یا ذاتی تعلقات سے ہے کیوں کہ میں آج تک نقشبند قمرؔ نقوی بھوپالی سے نہیں ملا ۔ان سے میری انٹرنیٹ ملاقات تب ہوئی جب میں نے ۳؍ برس پہلے کسی رسالے سے ان کی تصویر اور کلام لے کر اپنی ویب ڈائریکٹری ’’اردو پوئٹس انیڈ رائٹرز آف اردو ‘‘ میں شامل کرکے ان کو اس سے مطلع کیا تھا۔تب سے اب تک شاید کچھ ہی ای۔میل کا تبادلہ ہو ا ہوگا کہ اچانک ایک دن ان کی کتاب حماسہ کی پہلی جلد موصول ہوئی۔ میں نے اسکا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کتاب سے قارئین کو رو شناس کراؤں۔

Friday, 20 September 2013

Poets' tribute to Muslim Saleem's parents


POETIC TRIBUTES TO MUSLIM SALEEM’S PARENTS BY DR. AHMAD ALI BARQI AZMI (DELHI), ZIA SHAHZAD SHAHZAD (KARACHI) AND NAZAKAT ALI AAZIM (CHICAGO, ILLINOIS) GRAPHICS COURTESY POET MOHD ALEEMULLAH KHAN WAQAAR (SAHARANPUR-INDIA)
************************************
MERA SHER IS TARAH HAI
JIN SAY HAY YE WUJOOD, ZABAAN HAI, KALAAM HAI
UN DO AZEEM ROOHON KO MERA SALAAM HAI
**********************************
Zia Shahzad Shahzad (Karachi)
مسلم سلیم میرا بھی پہنچے انہین سلام

۔ ۔ ۔ بیشک عظیم روحوں کا جنت ہی ہے مقام ۔