Urdu poets and writers of West Bengal by Muslim Saleem


Muslim Saleem reciting his ghazals at Jashn-e-Muslim Saleem at MP Urdu Academy, Bhopal on December 30, 2012.
Acknowledgment: We are thankful to famous poet, writer and journalist Mr Muslim Saleem and his websites www.khojkhabarnews.com,  muslimsaleem.wordpress.com, muslimsaleem.blogspot.com 
urdupoetswriters.blogspot.com
urdunewsblog.wordpress.com

and the Urdu web directories launched by him for taking matter for this article. For further details of Urdu poets and writers we recommend to browse the directories launched by Mr Muslim Saleem. They include: 1.Urdu poets and writers of world, 2. urdu poets and writers of India, 3. Urdu poets and writersof Madhya Pradesh, 4. Poets and writers of Allahabad, 5. Urdu poets and writers of Shahjahanpur, 6. Poets and writers of Kashmir (+Jammu) and Kashmiri origin. 7. Urdu poets and writers of West Bengal 8. Drama world of India. 8 Urdu poets and writers of Allahabad. 9. Urdu poetesses and female writers. 
Address: Muslim Saleem, H. No. 280, Khanugaon, Near Masjid Bismillah, Bhopal-462001. Mob: 09009217456
email: muslimsaleem@rediffmail.com
From Left) Zafar Naseemi, MP Urdu Academy Chairman Saleem Qureshi, Dr. Barqi Azmi, Prof Afaq Ahmad, Dr. Qasim Niazi, Muslim Saleem at Jashn-e-Muslim Saleem at MP Urdu Academy, Bhopal on December 30, 2012.
 *********************************************************************
Asghar Shameem

***********************************************************************
 Azimuddin Azim
Mohammad Azimuddin Azim was born to Mohammad Akbaruddin at village Nahob, post office Rajgir, thana Sailao in Nalanda district (Patna) on December 31, 1947 and retired from Barnpur school in 2007. He is a disciple of Saif Samastipuri and Mahboob Anwar Barnpuri. Collection of his poetry "Harf Harf Ehsaas" has been published by Irtiqa Publishing House, New Delhi in 2010. Address: Dharmpur, post Barnpur, district Burdwan-713325 (West Bengal). Mobile No. 09832114838. Couplets
Rifaqaton ka wo mahaul ab naheen milta
yahaan kisi se koi be-sabab naheen milga
Shayad hamaari koi adaa bha gayee yse
itna kabhi to toot ke koi mila na tha


*********************************************************************
Mohammad Shamsuddin Nadvi 
 Research scholar, Vishwa Bharti University, Shanti Niketan (West Bengal). Mobile: 09475263941.
*********************************************************************
Mushtaque Darbhangwi
Born: February 5, 1958. Address: Akhbar-e-Mashriq, 12 Dargah Road-700017. Mob: 080 13 089694

***************************************************************************
 Naghma Noor

*********************************************************************
Naushad Momin
 Pen Name- NAUSHAD MOMIN
Poet, Critic and Editor of Mizgaan
Original -NAUSHAD ALI ANSARI
Address- 21-BC, Alimuddin Street, 2nd floor,Kolkata-700 016 (india)
85-J, Topsia Road, Kolkata-700 039, India
Born on 05--01--1967 ,Graduated in Commerce, Mastered in Urdu and Phd. on Urdu Literature from University of Calcutta.Engaged in Union Bank of india as an officer.
By profession a Banker,but loveS Literature,writes Poetry,Literary Articles Research Papers. Attended various National and International Mushaira/Kavi Sammelan and Seminars All over india as well as overseas...particularly DOHA,MUSCAT,PAKISTAN etc.
Translated hindi stories in to Urdu written on Communalism and presented in book form tittled KITAN BADAL GAYA INSAAN, Compiled and Edited,1)MUNAWWAR RANA KI SAU GHAZLIEN,2)DR.MUZAFFAR HANFI-Life & Works,3) TEEN SHEHROAN KA CHAUTHA AADMI-MUNAWWAR RANA,4) FAIZ KI BEHTAREEN GHAZLIEN.
Edited= URDU DRAMA NUMBER OF MIZGAAN, ADAB ITFAL NUMBER, AND NAI NASL NAYA ADAB NUMBER consisting of 1857 pages in a single volume of MIZGAAN.
Under Publication. ZAAVIEYE (Write ups/ Articles on Urdu Literature ) FALAK SITAREY (cOLLECTION OF GHAZAL)
**********************************************************************
Qaiser Aziz
Real name S.M. Abu Qaiser. He is a good short story writer and poet. He was born on March 25, 1962 to Mr Abu Nasr and Mrs Nasira Khatoon at Rahmat Nagar, Barnpur, district Bardhaman (Burdwan) in West Bengal. He graduated from Oriental College, Magadh University, Patna in Bihar. Qaiser Aziz is at present assistant accounts officer with Income Tax Department, New Delhi. Address: Quarter No. 1117, Sector 12, R.K. Puram New Delhi. Mobile: 09718511120. Qaiser Aziz’s maiden collection of poetry -  Takmeel-e-Arzoo – was awarded by the Delhi Urdu Academy in 2009 and drew applause from many stalwarts. The collection of his short stories – Aiman – has been published in the year 2010. (See also “Urdu poets and writers of West Bengal” in "urdu poets and writers of India" by typing these words in google.
******************************************************
Wahshat Kalkattavi 



وحشت کلکتوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
آج 20 جولائی بنگال کے غالب اور اردو ادب کے استاد شاعر وحشت کلکتوی کا یومِ وفات ھے ۔ 
تاریخ پیدائش : 18 نومبر 1881ء 
تاریخ وفات : 20 جولائی 1956ء
سیدرضا علی وحشت کلکتوی 18 نومبر 1881ءمیں شہر کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام حکیم شمشاد علی تھا ۔اس وقت یہ شہر عالم میں انتخاب کہلاتا تھا،کیونکہ دہلی کے حسن کو انگریزیوں نے پامال کر دیا تھا ۔بار بار اجڑنے والی دلّی اس بار غدر کے نام پر بری طرح اجڑگئی تھی۔جبکہ کلکتہ جو برصغیر میں انگریزوں کا مستقر تھا اس لئے یہاں کا حسن روز افزوں ترقی پہ تھا۔تاج برطانیہ سے جڑا شہر تھا، اس لئے یہاں ترقی کی رفتار بھی تیز تھی۔اس شہر کی کشش لوگوں کو کھنیچے لا رہی تھی۔اسی کشش میں رضا کے دادا بھی یہاں بھی آئے تھے۔اس دور میں ان کے دادا حکیم غالب بھی بہت مشہور تھے۔لوگ کہتے تھے ان کے پاس مردہ بھی جا کر زندہ ہو جاتا تھا ۔مگر یہ شہرت انہیں دلّی سے کلکتہ آنے کے بعد ملی۔ابتداء میں انہوں نے اپنا مطب نواب سراج الدولہ کے شہر علی پور میں کھولا تھا،مگر علی پور کے مقابلے میں کلکتہ زیادہ ترقی یافتہ تھااس لئے یہ درمیانی 6میل کا فاصلہ طے کر کے وہ کلکتہ منتقل ہو گئے۔یہاں آتے ہی ان کی قسمت کھل گئی ۔ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی اور دولت برسنے لگی۔ایسے امیر گھرانے میں رضا نے جنم یا اس لئے باپ اور دادا دونوں کا چہیتے تھے۔ان کے والد مولوی شمشاد علی نے طب کے بجائے تعلیم کا میدان منتخب کیا اور انگریزی سرکار سے وابستہ ہو گئےمگر عمر نے وفا نہ کی اور وہ رضا کو یتیم کر گئے،رضا اس وقت لڑکپن میں تھے۔اسی کم عمری میں انہوں نے یتیمی کا داغ سہا مگر غریبی تو تھی نہیں لہٰذا کوئی پریشانی زیادہ حائل نہ ہوئی تعلیمی سلسلہ چلتا رہا۔مگر زیادہ عرصہ تعلیم حاصل نہ کر سکے،کیونکہ جائداد آہستہ آستہ بکتی جا رہی تھی۔1898؁ میں اس رضا علی وحشت نے انٹرنس پاس کیا اور پھر 1903؁ میں امپریل ڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہو گیا۔ان کے ذمّہ ترجمہ کا کام لگایا گیا۔وہ فارسی مکتوبات کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا کرتے تھے۔یہ وہ درخواستیں ہوا کرتی تھیں جو بر صغیر کےکونے کونے سے تاج برطانیہ کو بھیجی جاتی تھیں۔دن بھر بیٹھے قلم گھسیٹتے رہو اس بنا پر انہیں یہ کام پسند نہیں آیا مگر مجبوری تھی اس لئے کئے جا رہے تھے۔اس دوران انہیں حکومت انگلشیہ نے 1921؁ میں خان بہادر کا خطاب عطا کیا۔ویسے بھی 1910 ؁میں ان کا مجموعہ کلام”دیوان وحشت”کے عنوان سے منظر عام پر آچکا تھا۔1926؁میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج کی بنیاد پڑی تو رضا نے نوکری سے
استعفٰی دے دیا، اور اس کالج میں اردو کے لیکچرار کی حیثیت سے آگئے۔ان کی شاعری کی دھوم پورے کلکتہ میں مچی ہوئی تھی۔ ہر مشاعرے کی وہ ضرورت سمجھے جاتے تھے۔مرشد آباد ، عظیم آباد ، ڈھاکہ ، ہوگلی،جیسے بڑے بڑے شہروں میں ان کے شاگردوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ان کا شمار اساتذہ میں ہونے لگا تھا۔اردو ادب کی خدمات پر انہیں حکومت برطانیہ کی جانب سے خان بہادر کا خطاب دیا گیا۔اب وہ کافی معتبر مانے جانے لگے تھے۔ان کی شہرت بھی وسعت اختیار کر چکی تھی۔شہر میں بصد ادب یاد کئے جانے لگے تھے۔5سال علم ادب کی خدمت کے بعد اب انہیں پھر نوکری کرنے کی سوجھی کیونکہ جائداد نہ ہونے کے برابر تھی۔افتاو زمانہ نے وقت کے ساتھ چلنے کی چاہ نے سب کچھ بکوا دیا تھا۔1941؁میں لیڈی برے برن کالج کلکتہ میں لیکچرار شپ کی نوکری کر لی۔1سال تک اردو پڑھاتے رہے، پھر انہیں فارسی کا شعبہ دے دیا گیا۔یو ں بھی وہ اردو و فارسی میں ہی شاعری کیا کرتے تھے۔1948؁ تک وہاں تدریسی عمل انجام دیتے رہے پھر اس ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد چونکہ پاکستان کا قیام عمل میں آچکا تھا اور کلکتہ و بہار و مشرقی یو پی کے مسلمان بڑی تعداد میں مشرقی پاکستان منتقل ہو چکے تھے جن میں ان کے شاگردوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی ان سب کے بےحد اصرار پر انہوں نے کا فی غور و فکر کے بعد ہجرت کی ٹھانی۔اس کی 1وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے صاحبزادے ذہنی معذور تھے جنہیں زنجیروں سے جکڑ کر رکھا جاتا تھا،اس کے انتقال نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔بیٹے کی موت نے انہیں دلبرداشتہ کر دیا تھا۔بالآخر 1950؁ کو وہ کلکتہ سے ہجرت کر کےمشرقی پاکستان کے مرکزی شہر ڈھاکہ میں آگئے۔ مگر یہ شہر انہیں راس نہ آیا ۔زندگی کے چراغ کا تیل ختم ہو چکا تھا 1952؁میں انہوں نےزندگی سے ناتا توڑ لیا ۔بعد از مرگ ان کے شاگردوں نے دوسرا دیوان “ترانہ وحشت” شائع کرایا۔انہیں بنگال کا غالب کہا جاتا تھا۔انہیں یہ لقب مولانا حالیؔ نے دیا تھا ۔ڈھاکہ کے عظیم پورہ قبرستان میں ان کی قبر ہے۔
علامہ اقبال نے ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ھوئے لکھا ھے ۔ 
- " سب کا سب پڑھا اور خُوب لطف اُٹھایا- ماشاءاللہ طبعیت نہایت تیز ہے- اور فی زمانہ بہت کم لوگ ایسا کہہ سکتے ہیں- آپ کی مضمون آفرینی اور ترکیبوں کی چستی خاص طور پر قابل ِ داد ہیں- فارسی کلام بھی آپ کی طباعی کا ایک عمدہ نمونہ ہے- شعر کا بڑا خاصہ یہ ہے کہ ایک مستقل اثر پڑھنے والے کے دل پر چھوڑ جائے اور یہ بات آپ کے کلام میں بدرجۂ اتم موجود ہے" 
علامہ اقبال بحوالہ اوراق ِ گم گشتہ از رحیم بخش شاہین ناشر: اسلامک پبلی کیشنز. لاہور 1976ء صفحہ 140-141
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کتابیات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
نقوش و آثار (1957ء)شاعری
ترانۂ وحشت (1953ء) شاعری
دیوان وحشت (1910ء)شاعری
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
منتخب کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
تعجب کیا اگر میری پریشانی نہیں جاتی
کہ میں مشکل میں ہوں اور فکرِ آسانی نہیں جاتی

حصولِ آرزو کی دل میں یہ اُمید کیسی ہے
میں کیونکر مانوں ایسی بات جو مانی نہیں جاتی

ہوا ہوں تیری پیہم بے رُخی سے اس قدر بے حس
کہ اُلفت کی نظر بھی اب تو پہچانی نہیں جاتی

بہار آئی بھی رخصت بھی ہوئی صحنِ گلستاں سے
ترے وحشی کی لیکن چاک دامانی نہیں جاتی

تری ہی زلفِ برہم کا اشارہ ہے اگر میری
پریشاں حالی و آشفتہ سامانی نہیں جاتی

نہ جانے کیا نظارہ پیش کرتا ہے جمال اُس کا
کہ آنکھیں دیکھتی ہیں اور حیرانی نہیں جاتی

ہوا سرزد یہ کیسا جرم مجھ سے راہِ اُلفت میں
کہ بعد از عفو بھی میری پشیمانی نہیں جاتی

نہ سمجھے تیرے تیور ہی نہ اپنا حال ہی دیکھے
دلِ ناداں وہی ہے اس کی نادانی نہیں جاتی

کروں کیا ، ہے تقاضائے دلِ حُسن آشنا وحشت
غزل گوئی نہیں چھٹتی، غزل خوانی نہیں جاتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوسِ سُود میں سودائے زیاں کرتا ہوں
جو مجھے چاہئے کرنا وہ کہاں کرتا ہوں

دل پھُنکا جاتا ہے پر آہ کہاں کرتا ہوں
کس قدر پاس ترا سوزِ نہاں کرتا ہوں

حال دل کچھ تو نگاہوں سے عیاں کرتا ہوں
اور کچھ طرزِ خموشی سے بیاں کرتا ہوں

شغلِ اُلفت میں کوئی دم بھی نہیں ہے بیکار
اور جب کچھ نہیں کرتا ہوں فغاں کرتا ہوں

ہمنشیں میرے بہت ہیں ، نہیں ہمراز کوئی
دل کی جو بات ہے کب وقف زباں کرتا ہوں

عقل حیران ہے خود اپنی کہ میں کیا کیا کچھ
دوستی میں تری اے دشمنِ جاں کرتا ہوں

جانتا کیا نہیں میں تیری وفا کو لیکن
صرف رنگینیء عنوانِ بیاں کرتا ہوں

شغل مے سے مجھے کیا کام مگر جب ناصح
پوچھتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ ہاں کرتا ہوں

لطف آجاتا ہے ارباب سخن کو وحشت
جب کبھی تذکرہء حسنِ بتاں کرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درد کا میرے یقیں آپ کریں یا نہ کریں
عرض اتنی ہے کہ اس راز کا چرچا نہ کریں
۔۔۔۔۔۔
 — with Saleem Farooqi.

******************************************************************