Monday, January 13, 2014

NAZRANA-E-AQEEDAT BARAI MUSLIM SALEEM SB: AUWWAL SANGRAMPURI

NAZRANA-E-AQEEDAT BARAI MUSLIM SALEEM SB
AUWWAL SANGRAMPURI
JEDDA, SAUDI ARABAI
HUSN-E-SUKHAN MAIN JO YE TIRAY INSIJAAM HAI
SHAHID HAI, KOI BHI NA TIRAA HAM-MAQAAM HAI
SAARE FUSOON-NIGAAR YE KARTE HAIN AITIRAAF
AB REEKHTE KA TOO HI JAHAAN MAIN IMAAM HAI
BARQ-E-SUKHAN HAI TERI ZIYAA-BAAR HAR TARAF
DAANISH MAIN TERI MEHR-E-SUKHAN TEZ-GAAM HAI
AHL-E-ADAB NAY TUJHKO WO MANSAB ATAA KIYA
SHE’RAA KO JO NUJOOM MAIN HAASIL MAQAAM HAI
TERAY SUKHAN KI FIKR SAY HAM PAR AYAAN HAI YEH
BAAM-E-FALAK KO CHOOMTA TERAA KALAAM HAI
MUSLIM SALEEM SAHIB-E-QALB-E-SALEEM HAIN
UNKA RUKH-E-HASEEN BHI MAAH-E-TAMAAM HAI
MERI DUA HAI HAR KOI HO US SAY MUSTAFEED
URDU ZABAAN PAY AAP KA JO FAIZ-E-AAM HAI
TERAY MURASHSHAHAAT-E-QALAM HAMARA DIL
DAST-E-NAZAR SAY CHOOM KAY KARTA SALAAM HAI
*******************************************
SHE’RAA= NORTH STAR
Auwwal design 1
About these ads

Friday, January 10, 2014

GRAND FELICITATION TO DR SHAHZAD RIZVI AT BHOPAL Part 1

ڈاکٹر شہزاد رضوی اور امریکہ میں اردو ادب کی قدآور شخصیت :مسلم سلیم
بھوپال کے فر زند کو پروفیسر آفاق احمد کا بھی خراج: شاندار استقبالیہ منعقد

بھوپال: ۲۹؍ دسمبر ۲۰۱۳واشنگٹن میں مقیم مدھیہ پردیش اور بھوپال کے عظیم فرزند مشہور شاعر اور ناول نگار ڈاکٹر شہزاد رضوی کو ہم سخن ویلفئر سوسائٹی و کھوج خبر نیوز ڈاٹ کام کی جانب سے شاندار استقبالیہ دیا گیا۔ اس موقعہ پرجناب مسلم سلیم نے ڈاکٹر رضوی کو امریکہ میں اردو ادب کی قدآور شخصیت سے تعبیر کیا۔ مہمانِ خصوصی پروفسر آفاق احمد نے بھی ڈاکٹر رضوی کی ادبی خدمات کو سراہا۔ اس سے قبل مسلم سلیم اور پروفسر آفاق احمد نے ڈاکٹر شہزاد رضوی کو ’’فخر بھوپال ‘‘ ٹرافی پیش کی۔ ہم سخن کے سکریٹری جناب عبدالاحد فرحان نے ڈاکٹر رضوی کو منظوم سپاس نامہ پیش کیا دہلی کے مشہور شاعر ڈاکٹر احمد علی برقی ؔ اعظمی نے تحریر کیا تھا۔ ڈاکٹر رضوی کی اہلیہ محترمہ رابعہ رضوی اور دختر ممتاز رضوی بھی اسٹیج پر موجود تھیں۔ پروگرام کا آغاز گلوکار جناب یعقوب ملک نے مسلم سلیم کی تحریر کردہ نعت سے کیا۔
جناب مسلم سلیم نے کہا کہ فی زمانہ ایک خانوادہ امریکہ میں اردو ادب کی سب سے زیادہ خدمت انجام دے رہا ہے جسمیں ڈاکٹر شہزاد رضوی ، انکی ہمشیرہ ڈاکٹر عمرانہ نشتر خیرآبادی ، ناہید نشترخیرآبادی اورر خسانہ وسیم اور برادرِ خورد سید ضیا خیرآبادی شامل ہیں۔ان کے والد یادگار حسین نشتر خیرابادی، والدہ محترمہ سیدہ سرفراز فاطمہ نشتر اور ہمشیرہ سیدہ سہیلہ خیرآبادی بھی اچھے سخنور تھے۔ڈاکٹر شہزاد رضوی ۱۹۶۴ء میں عالم شباب میں امریکہ چلے گئے۔ وہاں انہوں نے مختلف یونیورسٹیوں میں ا علیٰ تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے پروفیسر ہوگئے۔ اب وہ امریکی شہریت حاصل کرکے واشنگٹن میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ عرصہ سے مقیم ہیں۔
جناب مسلم سلیم نے بتایا کہ اردو کے علاوہ ڈاکٹر رضوی انگریزی میں بھی شاعری کرتے ہیں۔ آپ نے انگریزی میں کہانیاں اور ناول لکھنے میں بھی کافی شہرت حاصل کی ہے اور ان کے ناول Kahany.orgپر دیکھے جاسکتے ہیں یا amazom.comسے دستیاب ہوسکتے ہیں۔جناب مسلم سلیم نے اپنے مقالے میں امریکہ میں اردو ادب اور تدریس پر بھی سیر حاصل روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر شہزاد رضوی کی حیات و کمالات پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر آفاق احمد نے بتایا کہ ڈاکٹر رضوی نے دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ۔ انہوں نے موسم گرما کے دوران آکسفورڈ، سوربون(فرانس) اور لندن میں جاکر کورس کئے اور اسی دوران پورے یوروپ کا سفر بھی کیا۔صدر ریگن کے دوران حکومت ڈاکٹر رضوی نے ایوان صدر میں مترجم کی خدمات انجام دیں اور مسز ریگن کے ساتھ بحیثیت مترجم ان کے ہوائی جہاز میں میں سفر کرنے کا موقع بھی ملا، اس دوران میں امریکہ کی مشہور شخصیتوں، جیسے کہ ہنرسی کسنجر، افسران اور اداکار ان سے ملاقات ہوئی۔
پروفیسر آفاق احمد نے بتایا کہ ڈاکٹر شہزاد رضوی وہ اپنی شاعری میں روایتی موضوعات، واعظ، ساقی اور محبوب کی جفاکاری پر نہیں لکھتے۔ ان کی شاعری کے موضوع زندگی اور عالمی مسائل ہوتے ہیں جن سے آج انسان دوچار ہے۔ وہ اپنی شاعری سے مذہبی تفریق اور تعصب ، نسلی امتیاز اور قبائلی اور قومی رسہ کشی اور تصادم کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ بڑی آرزو ہے کہ دہشت گردی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے اور دنیا کے لوگوں میں ہم آہنگی اور بھائی چارہ پیدا ہوجائے۔ ڈاکٹر شہزاد رضوی صاحب اب تک ۱۲؍ ناول انگریزی میں تحریر کر چکے ہیں جنکے عنوان یہ ہیں۔.ان میں سے دو ناولوں ’’د ا لاسٹ ریسیڈینٹ ‘‘ اور ’’بہائنڈ د ا ویل‘‘ بھوپال کے پس منظر میں تحریر کئے گئے ہیں۔لیکن یہ مکمل طور سے فکتشنل ہیں اور انکابھوپال کے نوابی خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اپنے خطاب میں ڈاکٹر شہزاد رضوی نے اراکینِ ہم سخن ویلفئر سوسائٹی و کھوج خبر نیوز ڈاٹ کام کا شکریہ ادا کیا۔ڈاکٹر رضوی نے بتایا کہ ان کی پیدائش۲۸فروری ۱۹۳۷ء لشکر گوالیار میں ہوئی جہاں ان کے دادا خان بہادر حضرت مضطر خیرآبادی ایک زمانے میں جج تھے۔ مضطر خیرآبادی علامہ فضل حق خیرآبادی کے نواسے تھے ۔آپ کے خاندان کا ہندوستان کی جنگِ آازدی میں بھی اہم حصہ رہا ہے۔ آپ کے پرنانا حضرت فضلِ حق خیرابادی نے انگریزوں کے خلاف زبردست مہم چلائی تھی جسکی پاداش میں انھیں کالے پانی کی سزا دی گئی تھی اور وہیں انڈومان میں آپ کا انتقال ہو ا تھا۔ڈاکٹر رضوی کی والدہ محترمہ سیدہ سرفراز فاطمہ نشتر کا تعلق بھوپال کے ایک جاگیردار خاندان سے ہے۔ ڈاکٹر رضوی نے حمیدیہ کالج بھوپال سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ سیفیہ کالج میں لیکچرر رہے۔ اس کے بعد ایک اور ایم اے کی ڈگری انگریزی ادب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی اور پھر امریکہ چلے گئے۔
اس موقعہ پر ڈاکٹر شہزاد رضوی صاحب نے اپنی متعدد نثری نظموں سے بھی سامعین کو نوازا۔ ڈاکٹر رضوی نے مسلم سلیم کو اردو کے ایک بڑے شاعر اور ادیب سے تعبیر کیا۔ انھوں نے کہا کہ جناب مسلم سلیم انٹرنیٹ کے ذریعے بھی اردو کی بیش بہا خدمت انجام دے رہے ہیں۔
اس دوران رائسین سے تشریف لائے جناب حاجی میاں نے ڈ ایک بیش قیمت قلم اور پروفیسر مجید خاں و ڈاکٹر اعظم نے اپنی کتابیں اکٹر شہزاد رضوی کو پیش کیں۔
شروعات میں کھوج خبر نیوز ڈاٹ کا م کے ایڈیٹر جناب عطاء ا ﷲ فیضان ، ہم سخن کے صدر جناب شارق علی ، جناب بسید فیضان علی، ڈاکٹر انیس سلطانہ ، محترمہ رشدہ جمیل اور جناب مظفر اقبال صدیقی نے مہمانان کی گلپوشی کی اور ہم سخن کے سکریٹری جناب عبدالاحد فرحان نے ڈاکٹر شہزاد رضوی کو منظوم سپاسنامہ پیش کیا۔ جناب سلیم قریشی صاحب سے کہ اظہار خیال فرمایا۔
تقریب کی نظامت خوش فکر شاعر اور ادیب ڈاکٹر اعظم نے فرمائی۔ آپ ہی نے اظہار تشکر بھی کیا۔

Monday, January 6, 2014