Monday, January 24, 2011

Shamsur Rahman Faruqi plagiarises Dr. Abu Mohammad Sahar's book


*************************************************************
 Shamsur Rahman Faruqi plagiarises 
Dr. Abu Mohammad Sahar's book
See article and proof on the right bar of this blog
and 
www.urdunewsblog.wordpress.com

****************************************************************

Muslim Saleem special issue of Adabi Kiran periodical released

(From Left) Ataullah Faizan, Prof Afaq Ahmad, Mr. Laxmikant Sharma, Muslim Saleem and Yunus Makhmoor on the occasion of release of Adabi Kiran’s Muslim Saleem special issue.
Bhopal: March 18, 2011 (Abdul Ahad Farhan): Madhya Pradesh Culture and Public Relations Minister Mr Laxmikant Sharma released a special issue of Urdu periodical Adabi Kiran on noted Urdu poet and writer Muslim Saleem at his residence here. Those present on the occasion included famous Urdu critic Prof Afaq Ahmad, Muslim Saleem, Adabi Kiran’s editor Yunus Makhmoor and khojkhabarnews.com’s editor Ataullah Faizan. Speaking on the occasion, Mr Laxmikant Sharma said that Mr Muslim Saleem, who is a veteran journalist of English, Hindi and Urdu, has been penning poetry for the last 40 years. The collection of his poetry – Amad Amad – has been published recently. Mr Muslim Saleem’s ghazals are on offbeat subjects and he has made many a experiment in ghazal and has assimilated various new issues in his poetry.
In his address, Prof Afaq Ahmad said that Muslim Saleem’s poetry comes from the core of his heart and is connected to ground realities. He has added new dimensions to ghazal and has made the scope of this form of Urdu poetry, in which a poet has to say all in just two couplets. It is to the credit of Muslim Saleem that he has compacted larger thoughts in this cramped space.
Magazine’s editor Yunus Makhmoor said that through the special issue on Muslim Saleem, he has paid tributes to a sincere man and poet. Khojkhabarnews.com’s editor Ataullah Faizan said that he had launched this and other websites to highlight the poetry of his father –Muslim Saleem and these websites have evoked encouraging response.
At the conclusion, Yunus Makhmoor and Muslim Saleem expressed gratitude towards the Culture Minister for sparing precious time for the magazine’s release despite his very tight schedule in view of ongoing session of Madhya Pradesh Assembly.

****************************************************************


نظم
حق و باطل
ڈاکٹر  سیّدہ   سہیلا  نشتر  خیرابادی

جب بھی کہیں با طِل سر اُٹھاتا ہے
 مر ے وُجود میں چھُپا ہوا حَق باہر آتا ہے 
سِپاہی بن کر
 کیوں نہ ہو اَیسا ؟
نہیں  ہےسروکار
 مُجھے اُن تمام مفادات سے
شُہرت کے جھنڈوں سے
سیاست کے ہتھکنڈوں سے
دولت کے انباروں سے
ستا ئش بھرے ناروں سے
جِن کے لئے
یہ اَنا کے اَسیر
اپنی خوا ہِشوں ک غُلام
جھوٹ کے پُجاری
مکر کے سوداَگر
بربریت کے ٹھیکیدار
کرتے ہیں خون ریزیاں
اور بُھون ڈالتے ہیں
ہزاروں ہنستی کھِیلتی  مُسکراتی معصوم زندگیوں کو
صِرف اِک پل میں
اور پھِر رہ جاتے ہیں
کتنِے لوگ جیتے جی مرنے کو
کِتنی بو ڑھی آنکھیں  اند ھی ہوکر رونے کو
کِتنی جوان لڑ کیاں  پا گل ہو کر پھِرنے کو
کِتنی بیوایئں ما نگ میں خاک بھر نے کو
کِتنے ننھے بچّے فُٹ پاتھوں پر کوڑا بن کر  سڑنے کو
ظُلمتوں کے اِس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں
اپنی آنکھوں میں ایک خوش حال دُنیا کا خُواب سجائے
اپنے دِل میں ایک پُر امن صُبح نو کی آرزو لئے
مرے اندر کا اِنسان سامنے آتا ہے
حق کی مشعل لے کر
مشعل  جو ایک نور ہے ایک روشنی ہے
مشعل جو ایک تنویر ہے ایک تدبیر ہے
مشعل جو ایک تر غیب ہے ایک تِحریک ہے
مشعل  جو اندھیروں کی قاتِل ہے اور اُجالوں کی حامِل ہے
مشعل جو بھٹکے ہوئے گُمراہ لوگوں کے مُردہ ضمیروں کو جھنجوڑتی ہے
اور خونی راستوں کے رُخ اَمن کی  راہوں کی جا نِب موڑتی ہے
مشعل جو رنگوں، نسلوں،طبقوں اور مُلکوں کی آہنی دیواروں کو تو ڑتی ہے
اور نسِل  اِنسانی کا رشتہ حضرتِ آدم سے جوڑتی ہے
راہِ حق کا مُسافِر ہمیشہ بے خوف ہوتا ہے
تو پھِر کیوں ڈروں میں؟
حد سے حد یہی تو ہو گا
کوئ لہراتاہوا خنجر میرے کلیجے میں اُتار دیا جائے گا
کوئ گولی مرے دِل پر داغ دی جائے گی
یا مُجھے  زہر کا پیالہ پِلا دیا جائے گا
یا مُجھے سوُ لی  پر چڑھا دیا جائے گا
لیکِن میرے مرنے کے   بعد بھی
میرےاندرکاحق  زندہ رہیگا
اور وہ پھرکِسی اورشکل میں دُنیاکےسامنے آئےگا
کیوں     کہ حق   لافانی   ہے
______
 *************************************************


   عید
[کہانی]
سیّدہ سر فراز فا طمہ نشتر خیرابادی
      سعادت علی اپنے والِد  وجا ہت علی کی اِکلوتی اولاد تھے۔وجاہت علی کا تعلُق لکھنّو شہر کے ا یک امیر تر ین گھرا نے سے تھا۔ سعادت علی نے بڑے لاڈ و پیار اور عیش میں اپنی آنکھیں کھو لیں تھیں۔ماں باپ نے اُن کی ناز بر دا ریوں میں کوئ کسرَ نہ اُٹھا رکھی تھی۔ لاڈلے اور ریئس زادے ہو نے کی و جہ سے اُن کی ہر خوا ہِش کا  ا ِستقبال کیا جاتا
تھا۔تعلیم کی غرض سے سعادت علی کو ایک اعلیٰ اِسکول میں داخِل کیا گیا تھا۔قرُآن اور حدیث کی تعلیم کے لئے ایک حا فِظ کو مُقرر کر کے گھر  ہی پر اُن کی دینی تعلیم کا
معقول اِنتظام کیا گیا تھا۔ سعادت علی کی عُمر ابھی  گیارہ برس ہی کی تھی کہ اُن کی حسین  فِطرت کے جو ہر نُمایاں ہونے لگے۔
     رمضان لمبارک کا مہینہ  تھا۔ سعادت علی بڑے جوش و خروش سے روزے رکھ رہے تھے۔ایک دِن سعادت علی نے اپنے والِد محترم کے  پاس جاکر عرض کیا  کہ ابو جان!  ’’  میں اِس مرتبہ عید کو ایک خاص طریقہ سے منانا چاہتا ہوں۔اِس کے لئے مُجھے روپیوں کی ضرورت ہے۔و جا ہت علی  جو    ہر وقت اپنے بیٹےکی ہر خوشی کو ہر طور پر پوری کر نا چاہتے تھے اُنہوں نے  فورأٔ بخو شی دس ہزار روپیہ کا چیک اپنے لاڈلے بیٹے کو دیتے ہوئے کہا   ’’ برخُردار ! یہ  لیجئے اور  جایئے اپنی  خُواہِش کے مُطابق خرچ کیجئے اور ہاں سُنئے اپنی خریداری کے لئے  غفور میاں کو اپنے ہمراہ ضرور لیتے جایئے‘‘۔
     سعادت علی نے  چیک لے کر پیار سے اپنے والِد کے گلے میں با ہیں ڈال دیں اور بڑے ادب کے ساتھ اُن کا شُکر یہ ادا کرکے خوشی خوشی اُچھلتے کودتے اپنے دوست کر یم  الدین کو ساتھ لے کر عید کی تیاری کے لئے پلان بنانے چل دئے۔بیٹے کی یہ کیفیت دیکھ کر و جا ہت علی نے مسُکرا کر اپنی بیگم سے کہا ’’ زُبیدہ بیگم آپ نے دیکھا چیک لے کر ہمارے بَر خُوردار کتِنے خوش نظر آرہے تھے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ عید کے لئے اس کا کیا کرتے ہیں‘‘۔
      سعادت علی نے اپنے دوست کریم الدین کے ساتھ مِل کر ایک لمبی چوڑی لِسٹ تیار کی اور اپنے پرُانے مُلازِم غفور میاں کو ساتھ لے کرخریداری کا کام شروع کر دیا۔ایک ہفتہ کی مُسلسل محنت اور دوڑ دھوپ کے بعد اُن کی ساری خریداری مُکمل ہو گئ۔سعادت علی نے اپنا خریدا ہوا سارا سامان ایک خالی کمرے میں جمع کردیا اور اپنے والدین کے پاس جاکر اُن سے گُزارِش کی کہ ’’ابو جان!  امی جان! کیا ہی اچھا ہو کہ آپ دو نوں چل کر میری خریداری کو ایک نظر دیکھ لیں‘‘۔ وجاہت علی نے اپنے بیٹے کے اِسرار پر اپنی بیگم کے ہمراہ حویلی ک اُس کمرے میں پہُنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بے شُمار رنگ برنگ کے پیکٹس جِن پر ’’ عید مُبارک‘‘ کے کارڈز بھی لگے ہوئے ہیں بڑے سلیقہ سے رکھے ہیں۔سعادت علی نے اپنی دِلی خواہِش کا اِظہار کرتے ہوئے اپنے والدین سے درخواست کی کہ ’’ اگر آپ اِجازت دیں تو میں جُمعتہ الوداع سے قبل حَسن پور گاوں جا کر یہ تمام سامان جو میں نے غریب لوگوں کے واسطے خریدا ہے اپنے ہاتھوں سے  اُنہیں تقسیم کر آوں۔تحفوں کے بارے میں سعادت  علی نے آگے بڑھ کر بتایا کہ ابو جان! امی جان! یہ دیکھئے یہ کپڑے مردوں اور عورتوں  کے لئے ہیں اور یہ جو رنگ برنگ کے کپڑے ہیں بچّوں کے لئے ہیں جو عُمرکے لِحاظ سے اُن میں تقسیم کر  دیئے جایں گے۔بطور عیدی میں نے دس دس روپیے بچّوں کے کپڑوں کے پیکِٹس میں اور سو سو روپیہ عورتوں اور مردوں کے کپڑوں کے  پیکِٹس میں لِفافوں میں رکھ دیئے ہیں اورابو جان یہ خاکی تھیلے جو آپ دیکھ رہے ہیں اُن میں سویاں،میوہ، شکر اور گھی کے ڈبے رکھے ہیں اور یہ تین جوڑے بادامی،سُرمئ اور فاختائ رنگ کے جو سب سے علیحدہ رکھے ہیں اُن میں سے ایک غفور چا چا کا، دوسرا ڈرایئور صاحب کا اور  تیسرا حافِظ جی کے لئے ہے۔میری طرف سے یہ تینوں کا تحفہ ہے‘‘۔ ابو جان میں بتا نہیں سکتا کہ میں کتِنا خوش ہوں‘‘۔ دوسروں کے دِلوں کو خوشی دے کر میں حقیقی معنوں میں عید مناوں گا۔آپ کا بہُت بہُت شکُریہ کہ آپ نے میری اِس خواہِش کو پورا کرنے میں میری مدد فر مائ‘‘۔
     وجاہت علی اور زُبیدہ بیگم اپنے بیٹے کی اِس عُمر میں ایسی باتوں کو سُن کرششد رہ گئے۔ اُن کا دِل خوشی سے بھر گیا۔زُبیدہ بیگم نے اپنے بیٹے کی پیشانی پر بو سہ دیا اور بلایئں لیں۔وجاہت علی نے فرطِ محبت اور مسرت سے سرشار ہوکر سعادت علی کو سینے سے لگا لیا۔ اُن کی آنکھوں سے شُکر کےآنسو جاری ہو گئے۔اور سینہ فخر سے پھول گیا۔کہنے لگے’’ بر خوردار! آپ کے اِس کام سے جو خوشی ہمارے دِل کو ہوئ ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ گرین اِسٹریٹ پر جو ہمارا نیا ہو ٹل’’جنّت‘‘ تعمیر ہو رہا ہے اُس کی آمدنی کا ایک بڑا حِصّہ اکاونٹ میں آپ کے لئے جمع کر دیا جا یا کرےگا تا کہ آپ اپنی ایسی نیک خواہِشوں کو بروئے کار لا سکیں‘‘۔سعادت علی نے کہا  ’’ ابو جان!اِس کام میں میرے دوست کریم الدین نے بھی میری بہت مدد کی ہے‘‘۔ وجاہت علی نے کریم الدین کو بھی گلے سے لگا لیا اور دُعایئں دیں۔
   جیسے ہی وجاہت علی اپنی بیگم کے ہمراہ کمرے سے باہر نِکلے دونوں دوست خوشی سے بغل گیر ہو گئے۔سعادت علی نے کریم سے کہا   ’’چلو کریمو، چل کر دو  رکعت نمازِ شکُرانہ ادا کرتے ہیں کیوں کہ ہر نیکی کی تو فیق،طاقت اور موقع صِرف اللہ ہی کی طرف سے مِلتا ہے‘‘۔

...........................................................................



 "Aatish-e-Rafta ka Suraagh"
New novel by Musharraf Alam Zauqi
It is a 400-page novel which revolves around senstives issues of Muslims in India. Here is the preface of the novel for the benefit of our readers. Request is made to readers to buy and go through this novel.


****************************************************************



A CHANGE

(Dedicated to Global Peace)
BY Dr. Syeda Imrana Nashtar Khairabadi

We are one
White, Black, Hispanic, Asian
We are one

Hand in hand
Heart to heart
Share in tears
Share in smile
We will fulfill our dreams
With full efforts and striving

No poverty, no unrest
No hunger, no distress
No broken heart, no homelessness
No fatigue, no helplessness

Fear and terror
No, never never
No war, no destruction
No bloodshed, no bombs, no guns
No slavery, no oppression
No one high, no one low
No discrimination, no tension
No frustration, no agitation

Opportunity will knock at every door
Prosperity will search out every poor
Equality will go from home to home
Happiness will reside in every heart
Education will enlighten every mind
No person will be left behind

We are sons and daughters
Of Adam and Eve, same parents
We are the creations of one God
We are from the same source
Then why do religious disasters
And racial turmoil come in force?

Our joys are similar
Our  pains are the same
Our worries are similar
Our exhaustion is the same
In our veins
The color of blood is the same

One is  White, one is  Black
One is Hispanic, one is Asian
Over and above is our notion
We are human
We love all, each and every one
We are one

We believe in peace and co-operation
We trust in unity and integration
We believe in honesty and  dedication
We will make a mighty nation

All countries are coming nearer to each other
But the gulf between hearts is bigger
We will Make this distance shorter
We are at the top as a crown
Nobody can hold us down

We salute our soldiers
Who sacrificed their lives for a noble cause
We pray for victims
Who lost their lives without cause


Oh, Barack Obama
Harbinger of unity and global peace
Your arrival amongst us
In this painful world
Has caused the flowers of hope
To blossom
We trust in it
This is a  Change
Yes, we can.


**************************************************************** 
 More on plagiarism by Shamsur Rahman Faruqi
A new book has thrown light on the plagiarism by Shamsur Rahman Faruqui. The book written by Dr. Mukhtar Shamim is titled "Sawad-e-Harf' has thrown further light on the plagiarism by Shamsur Rahman Faruqui. In the chapter "Dr Abu Mohammad Sahar aur un ke mehrbaan muaasreen" (page 216), Dr Mukhtar Shamim has given clear proof of plagiarism by Shamsur Rahman Faruqui and other writers, which are being published for the benefit of readers.



****************************************************************

غزل
سیّدہ  ناہید نشتر خیرابادی
حال   دِل   کا  ہے  کُچھ  ا یسا کہ  سنبھلتا  ہی  نہیں
کِتنا  بہلاؤں   یہ   کم بخت  بہلتا  ہی  نہی

بُجھ گئے  آنسوؤں   کے سیل میں آنکھوں  کے چراغ
دِل  سُلگتا  تو   ہے ہر وقت    پِگھلتا    ہی نہیں

لب ضیاء  چہرہ  وفا   آنکھ  حیا   بات  اَدا
ایک  موسم    ہے  یہاں   جو   کہ بدلتا ہی نہیں

میری  دُنیا  میں  ہیں اِک  نُقطے پہ ٹہرےشب و روز
رات  کٹتی  نہیں دِن  نکلے   تو  ڈھلتا  ہی نہیں

ز ہر   سُقرات کو  ہر عہد   میں  پینا   ہوگا
یہ     وہ    دستور   ہے نا ہید   بدلتا  ہی   نہیں
**************************************************************** 

غزل
سیّد ضیاء خیرابادی
اُلفت  کے سارے  پھول  وہ   ساتھ لے گیا
بیئتے  ہوئے  وہ  سارے  لمحات  لے   گیا
 یادوں کا   تھا   ہُجوم   کبھی   میرے  آس پاس
جاتے  ہوئے   وہ  اپنی   سوغات  لے گیا
غم   کی  تپِش نے   چھین لی احساس  کی نمی
آ نکھوں سے جورواں  تھی وہ برسات لے گیا
چہرہ چھُپا سکا نہ میں کُچھ اُس  کے   سامنے
آنکھوں سے میرے  دِل کی  وہ  ہر بات لے گیا
دے  کر  وہ  مِرے  دِل   کومحبّت کی   وُسعتیں
آنکھوں  میں  جو  نمی  تھی  وہ  ساتھ   لے گیا
 ہاتھوں  سے  چھُوٹ  کر گرِا جب دِل   کا  آیئنہ
 ٹکُڑے  سمیٹ کر وہ  ضیاء   ساتھ لے گیا


****************************************************************

 Afsana 'Ashiyana' by Sarfaraz Fatima Nashtar Khairabadi

آ شیانہ
[کہانی]
سیدّہ سر فراز فا طمہ نشتر خیرابادی
جون کا مہینہ تھا شِدّت کی گرمی ہورہی تھی۔ وجا ہت علی اور زُبیدہ بیگم اپنے اِکلوتے بیٹے سعادت علی اور اُنکے دوست کریم الدین کے ساتھ ڈرایئنگ رُوم میں بیٹھے ٹیلی ویزن دیکھ رہے تھے۔
نور محمد سب  کے لئے لَسّی بنارہا تھا۔ خبریں آرہی تھیں کہ گرمی کا درجہ حرارت بڑھ جانے سے مُلک کے کئ حِصوں میں کئ مو تیں واقع ہو گیئں۔ زُبیدا بیگم  بولیں ’’ایر کنڈیشن کی وجہ سے گھر میں اندازہ نہیں ہو رہا ہے کہ باہر کِتنی غضب کی گرمی ہے‘‘۔لَسّی کا گھونٹ پیتے ہوئے سعادت علی نے کہا ’’ ابو جان ! امی جان ۱ ابھی گُذشتہ ماہ جب ہم لوگ فارم  ہاوس گئے تھے تو ہم  لوگ شیر پور
گاوں سے گُزرے تھے تب وہاں کُچھ ایسے منا ظِر دیکھے تھے جو میرے ذِہن پر بُری طرح نقش ہو کر رہ گئے ہیں‘‘۔زُبیدا بیگم نے اپنے بیٹے کو غور سے دیکھتے ہوئے پو چھا مثلأٔ؟ سعادت علی نے کہا’’امی جان شیر پور ایک چھو ٹا سا گاوں ہے جِس میں غریب مزدور لوگ رہتے ہیں۔ماں باپ صبح سویرے کھیتوں پر مزدوری کے لئے نِکل جاتے ہیں اور اِن کے  ننھے ننھے چھوٹے چھوٹے بچّے اپنی عُمر سے ذرا بڑے بھائ بہنوں کی پیٹھ پر لدے یا کمر سے لٹکے یا گرم  زمین پر لیٹے بیٹھے بھوکے پیاسے ناک بہتی ہوئ جِسم پر مکھیاں بھنبھنا تی ہوئ زندگی کی تمام بیزاریوں کو سمیٹے ہوئے ماں باپ کے اِنتظار میں کبھی جھو نپڑے کے اندر اور کبھی جھو نپڑے کے باہر بُری طرح وقت گُزارتے ہیں۔جِن کو نہ دودھ، نہ اچھی غذا، نہ ٹھنڈا پانی، نہ ٹھنڈی ہوا،نہ صاف سُتھرے  اُجلے کپڑے، نہ نہانا،نہ ہی اچھا کھانا اور نہ ہی کھِلونے اور نہ ہی عِلاج دوا میسر ہے۔ یہ بچّے مو سموں کی سختیوں کو مُشکِل سے  جھیلتے ہیں اور بیماریوں کا شِکار ہو کر بے عِلاج ودوا ہی مر جاتے ہیں۔ جب سے  میں فارم ہاوس سے واپس آیا ہوں اِن کے بارے میں مُستقِل سوچ رہا ہوں کہ اُن بچّوں کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے۔ابو جان نے اپنے ہوٹل ’جنّت ‘ کی آمدنی سے جو میرے مشا غِل کے لئے الگ اکاونٹ جمع کر نا شروع کیا ہے میں اُس آمدنی میں سے کُچھ اِس کام میں لگانا چاہتا ہوں کہ شیر پور گاوں میں ہم زمین خرید کر پانچ چھ کمروں کا ایک ’ڈے کیر‘ بنوایئں۔ اُن غریب بچوں کے لئےدو تین طر بیت یافتہ  آیاوں  کا تقرر کیا جائے۔ایک چو کیدار رکھ دیا جائے۔ ایک ڈاکٹر سے رابطہ کیا جائے جو مہینہ میں  دو بار بچوں کا چیک اپ کرے اور ایمر جینسی میں بھی وہی  اُن کو دیکھے۔ اُس کے وِزٹ کے حِساب سےاُس کی  پیمینٹ ہو جا یا کرے۔جو ذرا بڑے بچّے ہیں اُن کے لئے ایک مولوی مُقرّر کیا جائے جو دینی تعلیم، قرآن اور نماز کے علاوہ بیسِک انگریزی، اردو ہندی اور حِساب کی تعلیم بھی دے۔بچّوں کو مُفت ناشتہ کھانا اور یونی فارم ڈے کیر سے دیے جا یئں اور اُن کے کپڑوں کی دُھلائ کے لئے ایک دھوبی کو مقرر کیا جائے اور ایک مُلازمہ ڈے کیر کی صفائ کے لئے رکھی جائے۔جب سے میں شیر پور سے گُذرا ہوں میرے ذہین میں یہ پلان ہے۔ میں سوچ رہا تھا ابو جان کہ کسی فر صت کے وقت یہ پلان آپ لو گوں کے سامنےپیش کروں
گا۔ اِس سِلسِلے میں آپ دونوں کی کیا رائے ہے۔اپنے بیٹے کے اِس پلان کو سُن کر زُبیدا بیگم سوچ میں ڈوب گیئں۔و جاہت علی غور کرتے ہوئے کہنے لگے ’’ بر خوردار‘‘ شیر پور گاوں چودھری
شمشیر بہادر کی حُدود میں آتا ہے۔ڈے کیئر کی تعمیر کو بروئے کار لانا کوئ مُشکِل کام نہیں ہے۔اِس پلان کے سِلسِلے میں اگر کوئ مُشکل بات ہے تو وہ  چودھری شمشیر بہادر کا اِجازت نامہ ہے۔ بیٹے آپ  جانتے نہیں کہ اِس گاوں کا پتّا بھی اُن کی مرضی کے خلاف ہِل نہیں سکتا۔ اُن کی مرضی سے ہی اِس گاوں میں نہ کوئ پولیس چوکی ہے اور نہ ہی کوئ مدرسہ یا اِسکول۔ جو لوگ وہاں بستے ہیں وہ چودھری شمشیر بہادر کے بندھوا مزدور ہیں،وہ انگوٹھا چھاپ ہیں اور اپنے پُشتینی باپ دادا کے نا معلوم قرضوں کوسالہا سال مزدوری کر کے بھی نہیں چُکا پاتے۔اِن  غریب مزدوروں کے ہر مسلئے میں چودھری کا حُکم چلتا ہے۔ تمام باتیں سُن کر سعادت علی نے ایک ٹھنڈی سا نس بھری اور کہا ’’ ابو جان‘‘اگر آپ اِجازت دیں تو اِس سِلسلے میں،میں چودھری صاحب سے بات کر کے دیکھوں شاید اُن کا دِل پلٹ جائے اور وہ منظوری دیدیں۔ اُن کو تو خوش ہو نا چاہیے کہ ہم  اُن کی غریب جنتا کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔اور پِھر اِس کام میں اُن کا کُچھ خرچہ بھی تو نہیں۔ کامیابی اور نا کا می دینا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ میری طرف سے ایک کو شِش ہی سہی ‘‘۔وجاہت علی سوچتے ہوئے بولے’’ بیٹے میں آپ کی خواہش کو رد نہیں کر نا چا ہتا
میں اُن کو فون کرواکر آپ کو مُلاقات کے لئے  وقت دِلوادونگا۔ آپ ڈرایور کے ساتھ غفور میاں کو بھی اپنے ہمراہ لیتے جایئے۔لیکِن مُجھے  چودھری صاحب سے   قطعأٔ  یہ توقع نہیں ہے کہ  وہ آپ
کا یہ خُواب پورا ہونے دینگے‘‘۔
وجاہت علی نے دوسرے دِن  چودھری شمشیر بہادر کو فون کرواکر سعادت علی کے لئے مُلاقات کا وقت لے لیا۔ پیر کا دِن مقرر ہوا۔ چلنے سے پہلے سعادت علی اور کریم الدین دو دو رکعات نماز ادا کر کے اللہ تعالیٰ سے اپنے مِشن میں کا میاب ہونے کے لئے دُعا مانگی اور والدین کی اِجازت اور دُعایئں لے کر شیر پور کے لئے روانہ ہو گئے۔اُن
کے جانے کے بعد اِدھر زُبیدہ بیگم نے دو رکعات نماز ادا کرکے اپنے پروردگار کے سامنے سر بسجود ہو کر دُعا ما نگی۔
’’ اے میرے اللہ! اے کارساز قدیم ! اے قادر بے مثال مالک! میرا بیٹا تیری دُکھی اور پر یشان مخلوق کو راحت دینا چا ہتا ہے اُسے بحفا ظت اپنے مِشن
میں کامیاب لو ٹا نا‘‘۔
جیسے ہی سعادت علی کی کار چودھری شمشیر بہادر کی حو یلی میں دا خِل ہوئ مُلازم نے سلام کرکے دونوں کا خیر مقدم کیا اور تمیز کے ساتھ لے جا کر ڈرایئنگ روم میں بِٹھا د یا اور خود اندر چودھری
صاحب کو اِطلاع کر نے چلا گیا۔اِس دوران سعادت علی  چودھری صاحب سے اپنی بات کہنے کے لئے دِل میں جُملے تراش رہے تھے۔اور کریم الدین ڈرایئنگ روم کی سجاوٹ کا  بغور  جائزہ لے رہے تھے۔جہاں دیواروں پر جا بہ جا بارہ سِنگھا کی گردنیں لگی ہوئ تھیں۔ باپ دادا کے زمانے کی ڈھال اور تلواریں سجی ہوئ تھیں۔بندوقیں لٹک رہی تھیں اور شیر کی کھال ڈیوڑھی میں بِچھی
ہوئ تھی۔آباواجداد کی بڑی بڑی تصویریں رَعب و جلال  کی چتون لئے سُنہری فریم میں جڑی ہوئ دیواروں پر آویزاں تھیں۔ ایک ملازمہ داخل ہوئ اور ایک خُوبصورت ٹرے میں شربت
میوہ، پھل مِٹھائ اور نمکین میز پر رکھ کر چلی گئ۔
تھوڑی دیر میں  چودھری  شمشیر بہادر ڈرایئنگ روم میں داخِل ہوئے۔سعادت علی اور کریم الدین نے کھڑے ہوکر مودبا نہ انداز میں سلام کیا اور مصا فحہ  کیا۔چودھری صاحب نے ہونٹوں پر
ُ مسکرا ہٹ لاتے ہوئے کہا ’’ تشریف رکھئے‘‘ اور میز کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ آپ لوگوں نے کُچھ کھا یا پیا نہیں،آپ لوگ کچھ لیں‘‘۔ اور بو لے ’’آپ بچّوں کو مجھ سے کیا کام آ پڑا ہے جو آپ لوگ شہر سے میرے پاس آئے ہیں؟ ‘‘
سعادت علی نے مودبانہ عرض کیا کہ’’ چودھری صاحب  میں آپکے  شیر پور گاوں میں ایک  ڈے کیئر بچّوں کے لئے بنوانا چاہتا ہوں۔بات کو بیچ میں ہی قطع کر تے ہوئے چودھری صاحب نے کہا ’’ صاحب  زادے یہاں ڈے کیئر کا کاروبار نہیں چل سکتا کیوں کہ یہاں کے لوگ بہت غریب ہیں وہ اپنے بچّوں کو ڈے کیئر میں نہیں ڈال سکتے‘‘۔ یہ سُن کر سعادت علی بولے ’’ غریب
بچّوں کے لئے فِری ڈے کیئر بنانا چاہتا ہوں۔ جِن کے ماں باپ مُنہ اندھیرے کھیتوں میں مزدوری کے لئے نِکل جاتے ہیں  اور یہ بچےّاپنے جھونپڑوں میں بڑی بے چینی کے ساتھ اِنتظار میں پورا دِن گُزارتے ہیں اور موسموں کی سختیاں جھیلتے  ہوئے بیمار ہ جاتے ہیں اور غر بت کی و جہ سے بے عِلاج و دوا مر بھی جاتے ہیں‘‘۔
یہ سُن کر چودھری صاحب کا چہرہ تمتما اُٹھا اور آنکھیں چوڑی ہو گیئں۔آواز کو کُچھ نرم بناتے ہوئے بولے۔’’ بر خوردار ! میں نے آپکی بات سُن لی اور سمجھ لی۔آ پ  ابھی چھوٹے ہیں۔آپکی عُمر ابھی کھانے  کھیلنے کی ہے۔اللہ نے آپ کو بہت دولت سے نوازا ہے آپ کو چا  ہیے کہ آپ اُسکا صحیح استعما ل کریں،پوری دُنیا گھو میں،امریکہ جایئں،پیرس دیکھیں،لندن گھومیں۔آپ اِن  پھڈّوںمیں نہ ہی پڑ یں تو اچھا ہے۔ میں ایک اور بات آپ کو واضح کردوں کہ یہ غریب لوگ نالی کے کیڑے ہو تے ہیں۔وہیں پیدا ہوتے ہیں وہیں جیتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔اگر ہم اور
آپ  اِن کو اچھی جگہ لانے کی کو شِش بھی کریں تو اِن کو راس نہیں آئے  گی۔اللہ تعالیٰ نے ہی اِن کو یہ زندگی عطا کی ہے تو ہم اور آپ کیا کر سکتے ہیں۔میرا مشورہ یہ ہے کہ یہ خیال آپ دِل سے
نِکال دیں‘‘۔
یہ بات سُن کر سعادت علی نے  ایک لمبی سانس لیتے ہو ئے کہا’’ چودھری صاحب میں بہت  حَسّاس ہوں اور میرے سو چنے کا انداز زمانے سے جُدا ہے۔میں ہر بات کو اِس طرح سو چتا ہوں کہ
قُرآنِ پاک میں اِس کے لئے کیا حُکم ہے۔ میں قُرآنِ پاک کی تعلیمات کو صرف پڑھنے تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہتا بلکہ اُس پر عمل پیرا  ہونا بھی چا ہتا ہوں۔ میدانِ حشر کی اُس ر سوائ سے
 بچنا چاہتا ہوں۔جب اللہ تعالیٰ  یہ سوال کرے گا کہ ’’ہم نے تُمہیں دولت دی اور اِس دولت کا استعمال تُم نے کیسے اور کہاں کیا؟‘‘ اور دوسری بات یہ بھی سوچتا ہوں کہ امیری اور غریبی  تو اُس
کی قُدرت کے کھیل ہیں۔ جِس کو چا ہے دے دے اور جِس سے چا ہے لےلے۔ جہاں اللہ تعا لیٰ کے کرم  کی مِثالیں مِلتی ہیں وہاں اُس کے قہر کے نمونے بھی مِلتے ہیں۔ اسی لئے  چودھری صاحب میں ہر کام اور ہر عمل وہ کرنا چاہتا ہوں جِس سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ سکوں اور اُسکی رضا کا مُستحق ہو جاوں۔میں اِس بات سے اچھی طرح واقِف ہوں کہ اِنسان کو   ا پنے ہر سلوک اور ہر  عمل کا جواب اللہ کو دینا ہوگا۔اِنسان اللہ تعالیٰ کی سزا اور جزا ے نہیں بچ سکتا خواہ وہ زندگی میں مِلے یا مرنے کے بعد۔ اِسی فِکر کے پیشِ نظر یہ تجویز اور پیش کش میں نے آپ کے
سامنے رکھی ہے۔آپ کی اِجازت کے لئے۔میرا اِس میں یہ فائدہ ہے کہ میرا دِل اِس نیک کام سے مسرور ہو گا اور میری روح مُطمعن ہوگی۔ ان غریب بچّوں کا  یہ فائدہ ہو گا کہ یہ مو سموں کی
 سختیوں سے بچ جایئں گے اور ڈایریا ، نمونیہ، ڈِپھتھیریا اور  سو کھیا جیسے  مہلِک مرضوں سے محفوظ رہ سکیں گے۔انہیں ساف سُتھرا ماحول ،صحت بخش غذا،ٹھنڈی ہوا ،اُجلے کپڑے ،نرم بِستر
اور ضرورت پڑنے پر عِلاج و دوا کی سہولت ملےگی۔ اِن کے والدین کا یہ فائدہ ہے کہ وہ پنے بچّوں کی طرف سے مُطمئن اور بے فِکر رہیں گے۔ اور چودھری صاحب آپ کا یہ فائدہ ہے کہ اِس
نیک کام کی اِجازت دینے سے آپ کی نیکیوں میں ایک اور نیکی کا اضافہ ہو جائے گا‘‘۔ یہ کہ کر سعادت علی خا موش ہو گئے۔اور کریم الدین حیرت سے سعادت علی کی دِلیرانہ اور عالمانہ گُفتگو
کو دِل میں سرہاتے ہوئے غور کر نے لگے۔
تمام گُفتگو کو سُن کر چودھری صاحب نے  نظریں نیچی کر لیں۔ کمرے میں کُچھ دیر تک سناٹا رہا اور پھِر نظریں اُٹھا کر بو لے’’ سعادت میاں! آپ  یہ پلان پیپر میرے پاس چھوڑ جا یئں اور تھوڑا
وقت دیں سوچنے کے لئے۔ میں آپ کو اپنے فیصلے سے آ گاہ کر دوں گا‘‘۔
چودھری صاحب سے رُخصت لے کر سعادت علی اور کریم الدین  بھاری دِل لئے پنی کار میں آ کر بیٹھ گئے۔ سعادت علی نے افسردہ لہجے میں کہا’’ کریم مجھے لگتا ہے کہ چودھری صاحب کے اِنکار کا یہ شائستہ طر یقہ تھا‘‘۔ کریم نے کہا’’ مجھے بھی لگتا ہے کہ اِجازت نہیں د یں گے‘‘۔
دونوں بچّے گھر آ گئے۔وجاہت علی اور زُبیدہ بیگم کو ساری بات تفصیل سے بتادی۔وجاہت علی نے کہا ’’ مجھے  تو پہلے ہی اُن کی طرف سے یہ یقین تھا کہ اِجازت نہیں دیں گے۔لیکِن دِل برداشتہ
ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعا لیٰ سے دُعا کرو کیو نکہ تمہارا اِرادہ نیک ہے وہ ضرور کامیابی دے گا‘‘۔اُسی شام سے  سعادت علی اور کریم الدین عبادت میں مشغول ہو گئے۔وجاہت علی نے دیکھا کہ رات دیر تک اُن کے کمرے کی لائٹ جلتی رہتی تھی۔دونوں بچّے کبھی نماز پڑھ رہے ہیں تو کبھی قرآن پڑھ رہے ہیں۔ اِس طرح مسلسل عبادت کرتے ہوئے تین دِن گُذر گئے۔
چوتھے ر وز ڈاک سے وجاہت علی کے نام ایک رجِسٹرڈ لیٹر آیا جِس میں پلان پیپر پر  اِجازت  نامہ لِکھ کر  چودھری صاحب  کے دستخط تھے۔اور ساتھ میں وجاہت علی کے نام ایک  خط تھا۔
      
                        محترم بھائ سیّد و جاہت علی
                                  اسلام علیکُم
میرےگھرانے میں سات پُشتوں  سے زمیداری ہوتی آ ئ ہے۔ ایک  ایسا جا گیردارانہ نِظاِم جہاں انا، غرور اور تکبّر کو بڑکپن، ظُلم اور  زبردستی کو قوت، بیگاری لینے کو فیض اور مفاد سمجھا جاتا رہا ہے۔ جہاں سچ بولنے والوں کی زبان کاٹ دی جاتی رہی ہے اور جہاں مخالفت کرنے والی آنکھیں پھوڑ دی جاتی رہی ہیں۔جہاں رعب بندوق کی نوک پر قا ئم کیا جاتا رہا ہے اور انسانی جانوں کی
 کوئ قیمت نہیں سمجھی گئ ہے۔ کل تک میں بھی ا یسے سڑے گلے فرسودہ جاگیردارانہ نِظام کا ایک حِصہ تھا۔آپ کے صاحب زادے سے مُلاقات ہوئ۔اُن کی عالمانہ گُفتگو سُنی، اُن کے خیالات
سے آگاہی ہوئ۔نہ جانے کیسا اثر میرے دِل پر ہوا کہ مجھے اپنی پُشتینی روایات سے گھِن اور کراہیت آگئ۔ قُرآن  میں نے پڑھا ہے،نماز کو میں جاتا ہوں،حج میں نے کیا ہے۔لیکِن یہ سب
باتیں میرے لئے آج تک نیک شہرت کا ذریعہ بنی رہیں ہیں۔ میرے کسی عمل میں دین کا کوئ دخل نہیں رہا ہے۔آپ کے صاحب زادے کی گُفتگو اور جذبات سے کِتنامُتاثِر ہوا بتا نہیں سکتا۔
13,14, سال کی چھوٹی سی عُمر میں اُن کے دِل میں قرآنِ پاک کی کِتنی عظمت ہے۔اللہ تعالیٰ کے احکامات کی کِتنی اہمیت ہے۔کیسا خوفِ خُدا ہے اور رضائے الہیٰ حاصِل کرنے کی کیسی چا ہت
ہے، مخلوقِ خُدا سے کِتنی محبت ہے۔حق گوئ کی کِتنی جسارت ہے،ایمان کی کیسی دولت ہے۔ یہ اُن کے ہی  دِل کا نور تھا جِس نے میرے دِل کے اندھیروں کو دور کر د یا۔میں نے اللہ تعالیٰ کی
بارگاہ میں سربسجود   ہو کر اپنے ہر عمل کے لئے صدق دِل سے توبہ کی اور اپنے آباؤاجداد  کے لئے مغفرت کی دُعا کی۔آفریں ہیں وہ والدین جِن کو اللہ تعالیٰ نے ایسا فرزند عطا کیا۔خُدا اُن کی عمر
دراز کرے اور اُنہیں ہر بلا سے محفوظ رکھے۔آ مین۔   اپنا اِجازت نامہ  ا ور ساتھ میں ایک زمین کا نقشہ بھی بھیج رہا ہوں یہ میری جا نِب سے  ڈے کیئر کے لئے ایک حقیر ساتحفہ ہے۔۔میری دُعاوں کے  ساتھ    سعادت میاں کو دے دیجئے۔
اپنے مالِک اور خالِق کے سامنے گُنہگار اور شرمسار۔
آپ کا
چودھری شمشیر بہادر

وجاہت علی نے خط کو پڑھا ،چہرے پر خوشی کی چمک دوڑ گئ۔ اپنی مُسکراہٹ کو ہونٹوں میں دباتے  ہو ئے اُنہونے خط کو زُبیدہ بیگم کے آگے بڑھا دیا۔زُبیدہ بیگم نے خط پڑھا شُکر اور فرطِ مسرت
سےآنکھوں سے آنسو نِکل آئے۔ سعادت علی اور کر یم ا لدین  کو بلا کر خط دِکھایا اور پیار سے اپنے بیٹے کو سینے ے لگا لیا۔خط کو پڑھ کر سعادت علی اور کر یم الدین خُو شی سے اُچھل  پڑے۔
سعادت علی وجاہت علی سے لپٹ کر بو لے’’ابو جان میرا دِل بول رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہم لو گوں کی دُعا  کو ضرور سُنے گا‘‘۔ یہ کہ کر دونوں بچّےاپنے  کمرے میں گئے اور جا نماز بِچھا کر سجدے میں گِر پڑے۔
دوسرے دِن صُبح ناشتہ سے فارِغ ہوکر سعادت علی نے ب سے پہلے  چودھری صاحب کو نہایت احترام  کے ساتھ اُن کے اجازت نامے اور اُن کے ڈو نیشن کے لئے شکرئے کا فون کیا۔  ٹھیکیدار کو  بلواکر اُ سے زمین کا نقشہ دے دیا اور کریم کے ساتھ مِل کر ڈے کیئر کی شاپِنگ کے لئے لِسٹ بنائ اور ڈرایئور اور غفور میاں کی مدد سے خریداری شروع کر دی۔ دیکھتے دیکھتے تین ماہ کی مُدت میں ڈے کیئر کی عمارت تیار ہو گئ اِدھر سعادت علی کی  خریداری مُکمل ہو گئ۔  اب رہا سوال ڈے کیئر کے نام  رکھنے کا کر یم نے ’’ بچوں کی دُنیا‘‘  نام سوچا اور سعادت علی نے’’آشیانہ‘‘
نام تجویز کیا۔اِن دونوں نا موں کو لے کردونوں بچّے  زُبیدہ بیگم اور و جاہت علی کے پاس پہنچے اور عرض کیا ’’ ابو جان،امی جان ! اِن دونوں ناموں میں سے آپ لوگوں کو کونسا نام اچھا لگتا ہے،
کو نسا نام رکھا جائے‘‘۔ وجاہت علی اور زُبیدہ بیگم نے کہا ’’ آشیانہ‘‘ نام اچھا ہے‘‘ فورأٔ   ’’آشیانہ‘‘ کا سا ئن بورڈ بننے  بھیج دیا گیا۔ ایک ہفتہ کی مُدت میں ڈے کیئر کے لئے تمام اپائنٹ مینٹس
بھی کر لئے گئے۔ پہلی اکتوبر ڈے کیئر ک اِفتِتاح کے لئے  مقرر کی گئ۔ کریم الدین نے چودھری صاحب کو اور زُبیدہ بیگم اور وجاہت علی کے کچھ دوستوں کو اور ملازمین کو دعوت نامے بھیج دئے گئے اور گاؤں کے تمام لوگوں میں شِرکت کے لئے اعلان کروادیا گیا۔
پہلی اکتوبر کی اُجلی اور خُو شگوار صُبح تمام لوگ جمع ہو گئے۔ سب سے پہلے قُرآن  خوانی ہوئ ۔حا فِظ قر بان علی صاحب نے دُعا پڑھی۔ اس کے بعد سعادت علی نے کھڑے ہوکر ایک چھوٹی سی تقریر کی۔

’’محترم مہمانانِ گرامی اور حاضرین‘‘
السلام علیکُم !
آج ہم لوگ اِس ’’ ڈے کیئر ‘‘ جِس کا نام ’’ آ شیا نہ ‘‘ ہے اِفتتاح کر رہے ہیں۔در اصل ’’آ شیانہ ‘‘ میرے خُوابوں کی تعبیر ہے۔اِس ’’آ شیانہ‘‘ کو تکمیل تک پہنچانے میں کئ لوگوں نے میری
مدد کی ہے میں اُن سب کا تہہ دِل سے شُکر گذار ہوں۔ سب سے پہلے میں شُکریہ ادا کرتا ہوں محترم چودھری شمشیر بہادر صاحب کا جنہوں نے میری درخُواست قبول کی اور ڈے کیئر بنانے
کے لئے مجھے اِجازت دی۔نہ صِرف اِجازت ہی دی  بلکہ اپنا قیمتی سر ما یہ زمین کی صورت میں ڈو نیشن کے طور پر دیا۔ میں اپنے والدین کا شُکر گذار ہوں جو میرے اچھے کاموں میں مالی  اِمداد کے
ساتھ حو صلہ افزائ اور ہمت افزائ کرتے رہے ہیں اور اپنے مُفید مشوروں اور دُعاوں سے مجھے نوازتے رہے ہیں۔ میں اپنے دوست کریم الدین کا شُکریہ ادا کتا ہوں جو میرے ہر کام میں شانہ
بہ شانہ میرے ساتھ ہوتے ہیں۔ میں اپنے ڈرایئور بشیر محمد خان صاحب اور غفور میاں کا شُکر گذار ہوں جنہوں نے ڈے کیئر کے لئے شاپِنگ کروانے میں  میری  بھر پور مدد کی۔ میں بِلڈر
کانٹریکٹر محترم رفیع برادرس کا شُکر گذار ہوں جنہوں نے تھوڑی سی مُدت میں بہت خوب صورت بِلڈنگ مُناسِب داموں میں تعمیر کی۔میں حافِظ قُربان علی صاحب کا شُکر یہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میری اِس پیشکش کو  قبول فر مایا کہ وہ ڈے کیئر کے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اُردو،ہِندی،اِنگلش اور حِساب کی بیسِک تعلیم بھی دینگے۔ شکریہ  محترمہ سلمہ صاحبہ جو حافِظ
قُربان علی صاحب کی بیگم ہیں اور خود جنہوں نے ڈے کیئر کی سر پرستی کے عہدے کو  قبول فرماکر میری فِکر کو دور کر دیا۔ میں ڈاکٹر راحت کا شُکرگذار ہوں جنہوں نے میری درخُواست کو
منظور فرمالیا کہ وہ ہر ماہ  وزِٹ کر کے بچوں کی صِحت کا دھیان رکھیں گے۔ میں ڈے کیئر کے اُن تمام ملازمین کا شُکریہ ادا کرتا ہوں جو اِس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
اس کے بعد سعادت علی نے حافِظ قربان علی صاحب کو دعوت دی کہ وہ  حلف برداری کی رسم  کا آغاز کریں۔حافِظ صاحب  قرُآنِ  پاک کو ہاتھ میں دے کر ملازمین سے یہ کہلوایا کہ’’ میں اللہ کو حاضِر نا ضِر جان کر یہ کہتا/کہتی ہوں کہ میں اپنے فرایٔض اور زمہِ  داری کو سچائ ،ایمانداری اور محنت کے ساتھ ادا کرو ں گا/کروں گی اور ڈے کیئر کے بچوں کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھوں گا/رکھوں گی‘‘۔
اِس کے بعد سعادت علی نے اعلان کیا کہ ’’ آپ  ڈے کیئر سے ملحق  جو رہائش گاہ دیکھ رہے     ہیں وہ میں نِہایت ادب و   اِحترام کے ساتھ محترم حافِظ قرُبان علی صاحب اور اُنکی بیگم  سلمہ صاحبہ
کو  پیش کرتا ہوں اُن کی رہایٔش کے لئے۔ کل سے ڈے کیئر میں فِری داخلے شروع  ہیں۔ تمام مزدور اور کھیتوں میں کام کرنے و الے مرد عورتیں اپنے بچّوں  کو یہاں صُبح  چھِ بجے سے شام کے سات بجے تک کے لئے چھوڑ سکتے ہیں  ۔سب  بچّوں کو کھانا کپڑا  فری ملے گا‘‘۔ اِتنا کہنے کے بعد سعادت علی نے چودھری صاحب سے چاندی کی ٹرے میں  قینچی پیش کر کے رِبن کاٹ کر اِ فتتاح
کرنے کی  گُذارِش کی ۔ اس کے بعد چودھری صاحب کے ساتھ تمام مہمان ڈے کیئر کا معائنہ کرنے اندر گئے۔کیا دیکھتے ہیں کہ خوب صورت   ہال بنیں ہیں۔ایک ہال جو ننھے بچوں کا تھا جس میں لائن سے سُرخ رنگ کے لکڑی کے پالنے لگے تھے۔ الماریوں میں بچوں کے یو نیفارم، انکے رنگ برنگ کے کمبل رکھے تھے۔ کُچھ صندوقوں میں اُن کے کھِلونے،دودھ کی بوتلیں اورکپڑے رکھے تھے۔ کُچھ دیگر صندوقوں میں میٹس اور چھوٹے چھوٹے تکئے ر کھے تھے۔ اِسی طرح دوسرا ہال   ذرا بڑے بچوں کا تھا اور تیسرا اُن سے بڑے بچّوں کا ۔ چوتھے ہال میں مولوی
صاحب کی مسند اور چھوٹی چھوٹی  ڈیسک رکھی ہوئ تھیں۔ ایک ٹیلی ویزن اور ایک   وی سی آر رکھا تھا اور بچّوں کی کُچھ کیسٹیں رکھی ہو یئں تھیں۔ ایک الماری میں کُچھ قائدے اور قرُآنِ پاک
 کے پارے رکھے تھے۔دوسری الماری میں بچوں کےلئے آرٹ،   لینگویج   ،حساب اور کہانیوں کی کِتا بیں رکھی تھیں۔ اِس کمرے سے ملحق ایک کِچن تھا اور اِس کے ساتھ ایک ڈائنگ روم تھا۔ بچّوں کے ساتھ ساتھ مُلازمین کا ناشتہ اور کھانا بھی فِری تھا۔ پیچھے کی جانِب ایک بیک یارڈ تھا جِس میں فینس لگی تھی۔ جھولے پڑے تھے۔ایک خُو ب صورت پلے گراؤنڈ تھا بچّوں   کے لئے۔
سعادت علی اپنے مہمانوں ک لے کر ڈائنگ ہال میں گئے۔جہاں مُلازمین کے ساتھ سب مہمانوں کے لئے بہترین کھانے کا اِنتظام کیا گیا تھا۔ گاؤں کے لوگ جو بُلاوے پر آئے تھے  اُن کا بھی
کھانا تقسیم کر دیا گیا ۔ چودھری صاحب اِس ماحول کو دیکھ کر  حیرت زدہ تھے اور محظوظ بھی۔اُنہوں نے سعادت علی کو اپنے گلے سے لگا کر بہت سی دُعایئں دیں۔ اُس کے بعد سب لوگ اپنے
اپنے گھر رُخصت ہو گئے۔وجاہت علی کی کار شیر پور گاؤں سے لکھنو شہر کی طر ف جارہی تھی۔’’ آشیا نہ‘‘ بنا کر سب کے دِل شاد و مسرور تھے۔

ختم شُد


****************************************************************

Kya Ghalat Hai
A poem by Syed Tehseen Gillani


****************************************************************
 Ek Misre Mein Ghazal by Atif Javed Atif


****************************************************************

 Poem by Imrana Nashtar Khairabadi (March 2, 2011)

نظم
گھوڑے کی فِکرو نظر
ڈاکٹر سیّدہ عِمرانہ نشتر خیرابادی
میں ا یک  گُھوڑا ہوں
ایک سمجھدار جا نور
میں نے گُزارا ہے
اپنی عُمر کا بیشتر حِصّہ
جنگ کے سُرخ خُونی مِیدا نوں میں
اپنے دِل میں شِمع وفا روشن کئے
میں نے کھائے ہیں  خَنجر و تیرو تبرَ
بے خُوف و خطر
بڑے بڑے سُورمہ شِہسوارں کو میں نے گرِتے دیکھا ہے
بڑے بڑے قِصر شاہی کو میں نے ڈھِیتے دیکھا ہے
میں نے دیکھی ہیں  بنتی مِٹتی سلطنتیں
میں نے دیکھی ہیں اُٹھتی  گرِ تیں حکُو متیں
میں نے دیکھی ہیں کربلاَ میں یزید کی ظلمتیں
میں نے دیکھی ہیں میدانِ جنگ میں شُجا عتِ حُسین کی عظمتیں
دونوں عا لَم  میں روشن ہے شہِہِ دیں کا نام
اُن پر لاکھوں کروڑوں درُود  و سلام
میں نے دیکھے ہیں جامِ شہادت پیتے جانباز دِل کے دِیوانے
شمِع حَق پر مر مٹتے ہوئے عِشق کے پر وا نے
میں نے ایک نہیں کئ ہِٹلر دیکھے ہیں
خُونِ اِنساں سے  بھرتے کئ سمندر دیکھے ہیں
میں نے دیکھا ہے مُغل سلطنتَ کا زوال
میں نے دیکھا ہے فِرنگی سوداگروں کا کمال
میں نے دیکھے ہیں حِرص و  ہوِس کے ہاتھوں اپنے مُلک کو بیچتے اّیار
میں نے دیکھے ہیں جنگِ عظیم کا پر چم اُ ٹھائے
دوسروں کی سرحدوں میں    گُھستے اغیار
میں نے دیکھی ہے ہر جنگ کے بعد کمر توڑتی مہنگائ
چھینتی نیئ نسلوں سے اُن کے خوابوں کی راعنائ        
میں نے دیکھا ہے مُلکوں کو ٹکڑوں میں بٹتے
لُوٹ غارت گرِی اور تقّدسِ نسوِاں کو  لُٹتے
 میں نے دیکھی ہے معَصو م لوگوں پر ٹو ٹتی قیا مت
رو تی  ، بِلکھتی، چیختی، تڑ پتی اِنسا نیت
 میں نے دیکھی ہے بے و جہہ کی تبا ہی
تواریخ کے اوراق کو رنگتی ہوئ سیاہی
میں نے دیکھی ہیں دشتِ فردا سے نڈِحال
ڈرتی، کانپتی اور دِہلتی صُبحیں
میں نے دیکھی ہیں اپنے سینے پر سورج کو جمائے
تپتی،دِھکتی اور جلتی دو پہر یں
میں نے دیکھی ہیں خُون میں  لَت پَتھ نہائ سُرخ خُونی  اُداس شا میں
میں نے دیکھی ہیں آہو بکا کرتی  نُوہا گر سیاہ راتیں
جنگ کے طور طریقے بدل گئے
لیکِن اِنسان نہیں بدلا
وہ چاند پر پہُنچ گیا
اُس کے اندر کا  حیوان نہیں بدلا
میں اکثر حیراں اور آبدیدہ ہو کر سو چتا ہوں
یہ جو اِنسان ہے اشرف المخلوقات
عقل و فِہم رکھتا ہے
شعور و آ گہی سے آراستہ ہے
پھِر جانور سے بد تر کیوں ہے
اِتنی سی بات اُس کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی
سِکندر گیا جب دُنیا سے دو نوں ہاتھ خالی تھے


****************************************************************
Ghazal by Nashtar Khairabadi (posted on Feb 27, 2011)

غزل نشترخیرابادی
پھِر رہے  ہیں  کُو  بکُو  ویرانہ دَر ویرانہ  ہم
ڈھونڈنے  نِکلے ہیں   کِس کو اے دلِ دیوانہ ہم
ہو گئے   ہیں  بے نیازِ کعبہ و   بُت   خانہ  ہم
تیرے  صَدقے  ایے خُدا  ئے شیشہ و پیمانہ ہم
تشنہ لَب مر جایئں کیوں؟ ا یے ہمتِ مردانہ ہم
 تُوڑ کر  پی  جا یئں  گے قُفلِ درِ  میخانہ    ہم
تشنہ   کام   طُور کو ہے   دعوتِ   ظَر ف و  نظر
آج   کہیچں گے شرابِ جلوئے جانانہ    ہم
چُھپ کے پینے آرہے ہیں   رات   شیخ و  بر ہمن
لاو    گُل  کر دیں  چراغِ    کعبہ و بُت خانہ    ہم
ہے   یہی   نشتر   جو رنگِ   اِنقلابِ       اَنجمن
ایک    دِن   بن   جایئں   گے اپنا ہی افسانہ ہم
 

****************************************************************
 Atif Javed Atif's new sher


****************************************************************

Poem "Tere Bighair" by Imrana Nashtar  (Feb 18)
 
تیرے بغیر
اپنی پیاری مر حوم بہن ڈاکٹر سیّدہ سُہیلا نشتر  خیرابادی کے نام
ڈاکٹر سیّدہ عِمرانہ نشتر خیرابادی,
لارنس وِل [جارجیہ]


تیرے بغیر / یہ زندگی /کِتنی و یران ہے / کِتنی سُنسان ہے
کِتنی بے جان ہے /تیرے بغیر /یہ زندگی

تُجھ سے میرا رشتہ / یہ میری قِسمت /تیری فُر قت / ایک قیامت

تیری مُحبتیں تیری چاہتیں / تیرا طرز ِعمل تیری  عادتیں
تیرا حُسنِ خُلق تیری رفا قتیں
 /تیرا زوقِ سُخن تیرے مِزاج کی ریشمی لطا فتیں
تیرا آہنی عظم تیری فطرت کی نُوری صدا قتیں
تیرے معصوم شُوق  تیری بھولی بھولی حِما قتیں

تیرا ہر عَمل دِل نواز،جاں پُر سو ز،بُلند  نِگاہ
میرے دِل کو موہ لیتی تھی تیری ہر ہر ادا

تیرے کِردار کی اُونچا  یئاں /تیرے اُصاف کی اَچھّایئاں
تیرے قول و قرار کی سچّایئاں /تیرے وُسعتِ دِل کی گِہرایئاں

تیرے کھنکتے قِہقہے /تیری میٹھی مُسکُراہٹیں
گھر میں چلتی پِھرتی /تیرے قدموں کی آہٹیں
بہُت جگاتی ہیں مُجھے /پہروں رُلاتی ہیں مُجھے

آنکھیں دریا  ہیں /دِل صحرا ہے /دِل کے فَلک پر
تِرا چاند سا  چہرا ہے /میری سو چوں کے در پر
تیری یادوں کا پِہرا ہے

دل کے کرگھے پر بیٹھی تنہای / یادوں کی چادر بُنتی ہے
اشکوں کے دھاگوں سےبنتا ہے /اِسکا تانا  بانا ہے

اب تو بس یہ اِنتظار ہے / مُوت ایک بہانا ہو گی
تُجھ سے مِلنے کا ٹِھکا نہ ہوگی
تُو مُجھے لینے آے گی
اور میرا ہاتھ تھام کر لے جاے گی

 ****************************************************************
  
Nazm by Roase Mumtaz, Doha, Qatar
Posted on February 14, 2011


Hamein Tum Se Mohabbat Hai 




 
**************************************************************** 
Ghazal by Nashtar Khairabadi
(posted on February 8, 2011)
غزل (نشتر خیرابادی)
مقامِ حال میں عارِف اگر بیدار ہو جائے
جہاں کا ذرہ ذرہ صا حِب اسرار ہو جائے
مِرے دِل کا سیہ خانہ تجلّی زار ہو جائے
نقابِ رُخ اُلٹ دو بارشِ انوار ہو جائے
نِظامِ زہدو تقوی میں نِثارِ میکدہ کردو ں
اگررحمت مرےعِصیاں  کی  ذِمّہ دار ہوجائے
جنابِ شیخ اُس سجدے کی قیمت آپ کیا جانیں
وہ سجدہ جو قُبولِ آستانِ یار ہو جائے
وہ کیا سمجھےبہشت و کوثر و تسنیم کو نشتر
میسر جِس کو  فِردوسِ لَب ورُخسار ہو جائے


****************************************************************
Atif Javed Atif's ghazl "Kamal karte ho"

****************************************************************

  
Poem “Aaj Ke Noujawan” by Dr Syeda Suhela Nashtar Khairabadi

Late Dr.Syeda Suhela Nashtar Khairabadi was Atlanta-based poet. She belonged to scholary family of Allama Fazl-Haq Khairabadi.She was the grand daughter of Hazrat Muztar khairabadi and daughter of Hazrat Nashtar Khairabadi.She received her Masters degree in Linguistics and Ph.D Degree in Linguistics from Aligarh Muslim University Aligarh India.She participated and presented her poems in Urdu in International Mushiras held in Atlanta conducted by Aligarh Alumni Association Atlanta and Gehwara-e-Adab Atlanta. She also participated and presented her poems in English in International Poetic Convention held in Washington DC. Her poems were published in English anthologies  by International Library of Poetry MD, Poetry Guild OH, and she received honor and award for her publication.In 2007 she passed away of cancer in the Holy month of 17 Ramadan.  


آج کے نو جوان
[ہندوستان اور پا کِستان کے تعلیم یافتہ بے روزگار نو جوانوں کے کرب اور درد سے مُتاثِر ہو کر لِکھی گئ ایک نثری نظم]

ذہن میں آتِش فِشاں دِہکتا ہوا
دِلوں میں اُداسی کا سمندر لئے
چلے جارہے ہیں بربادی کی ڈَگر پر
ایک ہاتھ میں سند ایک ہاتھ میں پتھر لئے
آج کے نو جوان
اِنکے دِماغ ہیں کہ جلتی ہوئ بھٹّیاں
اِنکی سو چیں ہیں کہ کڑکتی ہوئ بِجلیاں
اِنکی ٹھوکر میں ہیں سُو سُو آندھیاں
ظُلمتوں کی نیئ نیئ چالوں کے شِکار
ظُلم  کے پھیلے کالے بھیانک سائے تلے
اپنی زباں کو بے زباں کئے
اپنی صدا کو بے صدا کئے
اپنی انا کو بے انا کئے
مجبور اور معزور
نِگاہوں میں تَجسُّس
ہونٹوں پہ سُلگتے خاموش سوال
حال کی بد حال فِضا میں
دِہشتِ فردا سے نِڈھال
سنگِ یقین ٹوٹتا ہوا
دامِن صبر چھو ٹتا ہوا
دم توڑتی ہوی تد بیر یں
خاموش لبوں پہ دِہکتی ہوئ تقرریں
دِل شکیستہ اور رنجور ہیں
نا تواں ہوکر نشہ میں چور ہیں
دِل میں آتا نہیں کوی حسین خیال
سر پہ لادے ہوئے ہیں پہاڑوں سا ملال
خُدا کے لئے اِن چراغوں کو زندگی دو
اِن سِتاروں کو تابندگی دو
اے نو جوانو!
تم درخشاں آفتاب ہو
مُلک کی عزّت  ہو قوم کی آب ہو
ظُلم اور نفرت کے اندھیروں کو مٹاِدو
پیار اور محبت کی قندیلں جلا دو
حوُصلہ رکھو کہ عِلم کی شمشیر رکھتے ہو
تُم اپنی مُٹھّی میں بند اپنی تقدیر رکھتے ہو

****************************************************************

Aqeel Shadab: The veteran poet died at Kota in Rajashtan on January 2, 2011 at the age of 75. He had penned poetry for 40 years and was published in periodicals of Indian and Pakistan. His first collection of poetry was published in the year 2001 and second one "Admi Nama" was published two days before his death but he could not see it as he was ill. On the insistence of Rajasthan Urdu Academy, Aqeel Shadab had writtern "Tazkira Shuara-e-Kota". (Taken from khojkhabarnews.com director Urdu poets and writers of India edited by Muslim Saleem)

**************************************************************** 
 Nazm Aankh Samandar Hai by Imrana Nashtar Khairabadi

آنکھ سمندر ہے
آنکھ سمندر ہے
آنکھ میں آنسو ہیں
آنسو موتی ہوتے ہیں
آنکھ میں کالی پُتلی ہے
پُتلی کشتی جیسی ہے
آنکھ کا پانی کھارا ہے
آنکھ سمندر ہے
وہی ساحِل ‘وہی ریت
وہی مو جیں‘ وہی طوفاں
وہی آس ‘ وہی پیاس
وہی اِشارے ‘ وہی کِنارے
وہی خموشی‘وہی ہلچل
وہی سکوت‘ وہی گِہرائ
وہی ڈوبتے سفینے‘وہی طلاطُم
وہی بغاوت پہ آمادہ طُغیانی/کِتنا مِلتا جُلتا ہے/
آنکھ کا سمندر سے مِزاج
جو آنکھ کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں
وہ کبھی نہیں بچ پاتے ہیں
آنکھ سمندر ہے
۔
ڈاکٹر سیّدہ عمِرانہ نشتر خیرابادی
جارجیا
  ****************************************************************  

**************************************************************** 
Wajeda Tabassum: See muslimsaleem.wordpress.com/2010/05/27 for complete profile.















****************************************************************

Urdu poetesses and female writers
This directory has been composed by great Urdu poet, critic and short story writer Muslim Saleem.

 
Azra Parveen: Poetess: Address: BSNL Mobile Section, Chowk Telephone Exchange Post Office Building, Head Post Office, Chowk, Lucknow-226003. Mobile 09450646400, 09415087499 phone: 0522 2409940 email: azraparveen2007@yahoo.com


Farida Rahmatullah: Editor of mahnaama Shuaa’en. Address: C/o Holy Mother’s English School Complex, Vinayaka Nagar, Patan Halli, JP Nagar, Phase-VII, Bangluru-560078. Mob: 09880574785.

Dr Amna Tehseen: Writer. Address: Shoba-e-Taalim-e-Niswaan, Maulana Azad National Urdu University, Gachi Baoli, Hyderabad-500032 (India). Mob: 09885017580.

Kahkashan Anjum. Poetess: Address 3091-C/Sector, 23, HUDA, Gurgaon-122017 (Haryana). Phone )0124-411109, Mob> 0965495795

 Shehnaz Kanwal Ghazi: Writer: Address: 4/10, Darul Uns, Dodhpur, Civil Lines, Aligarh-202002. Mob: 09760518335

Ulfat Shakir. Poetess. Address: Swanchi Gate, Mangliayan Ki Gali, Jodhpur-342001 (Rajasthan). Mob 09460281656.

 Indira Shabnam Indu. Poetess: Address: 9/B, Mayurban Apt., 1100, Shivajinagar, Model Colony, Pune-411016 (Maharashtra).

 Bushra Ejaz: Poetess. Address: 184-A, Defence, Lahore Cantt-64792 (Pakistan).


Tasneem Abidi. Poetess: P.O. Box 2035, Abudhabi (UAE).

Parveen Sher. Poetess. Address: 126-Vineland Crescent, Winnipeg R3Y 1T6, Mantoba (Canada). Phone: 00204 896 0124.

Surayya Saulat Husain. Poetess. Address: 1702, Aster Regency Garden, Sector-6 Khargar, New Mumbai-410210 (Maharashtra). Mob: 09930783561

Humaira Rahat. Poetess. A-36/8, Azizabad, Federal B Area, Karachi (Pakistan). Mob: 00334 3501240.

Khadija Zubair Ahmad. Poetess: Tangle Wood, Dukes Covert, Bagshot GU1.95 HU, Surrey (UK).

 Deepti Mishra. Poetess. Address: Flat No 405, Citizen Society, Lokhandwala Complex, Andheri (West), Mumbai-400053. mob: 09555381354


Rasheeda Ayaan. Poetess. Address: 88-Glendidge Ave, Glenridge, New Jersey-07028 (USA).





Rafia Shabnam Abidi. Poetess. Address: 1-502, Sunrise, Aram Nagar-2, Fisheries University Road, Andheri (West), Mumbai-400061. Mob: 09930248255.

Razia Ismail. Poetess. Address. 10-Augusta Road, Acocks Green, Birmingham B27 6LA (UK).

 Razia Siddiqui Baseer. Poetess: address: H. No. 16-9-409/P/44, Old Malakpet, Waheed Nagar, Hyderabad-500036.

Ruby Jafri. Poetess. Address: P.O. Box, 11198, Gulshan-e-Iqbal, Karachi-75300  (Pakistan). Phone: 00300 2797271.

Roopa Saba. Poetess: address: F-2, Sector 18-A, Chandigarh-160008. Mob. 09888423784.

Rumana Rumi. Poetess. Address: A.-39, Sherton Centre, Block-7 F.B Area, Karachi (Pakistan). Phone: 00301 2140657.

Zaibunnisa Zaibi. Poetess. Address: N-2930, Metroville-III, Block 2, Abul Hasan Isfahani Road, Gulshan-e-Iqbal, Karachi (Pakistan). Ph. 0031 2120241.

Sultana Mehr. Poetess: 2-Birchtrees Croft, Birmingham B26 1EF (UK).

Seema Abidi. Poetess. Address: 937-W, North Ave “A”, Villapark, IL-60181 (USA).

 Shabnam Ishai. Poetess. Address: P.O. Box 1427, GPO, Srinagar-190001 (JK). Mob 09906723720.

 Shaheen Mufti. Poetess. Address: Marghzar College, University of Gujrat, Gujrat (Pakistan).

Sahiba Shahryar. Poetess. Address: P-8, Andrew Ganj Extn, New Delhi-110049. Mob: 09868883743.

Sadiqa Nawab Sahr. Poetess. Address: Flat No. 2, Ist Floor, Mohsin Manzil, Shastri Nagar, Khopoli-402031 (District Raigad) Maharashtra. Mob: 09370821955.

Sufia Anjum Taj. Poetess. Address: 1244-Millbrook Road, Canton, MI-48188 (USA).

Azra Naqvi. Poetess. Address: Farhat Kada, Sir Syed Nagar, Doodhpur, Aligarh-202001.

 Iffat Rauf Ameer. Poetess. Address: Room No. 213, Urdu Department, Oriental Studies, Nauroz Bkebatira Tuleebe, Ablai Khan University, Alamty, Kazkthstan. Mob 007 700 3498561.

Fatima Taj. Poetess. Address: PO Box 615, Jubilee Post Office, Diwan Deorhi, Hyderabad-500002 (Andhra Pradesh). Mob. 09888287179.

Farhat Ara. Poetess. Address: Ward 23/17, Araria (Bihar).

Gulnar Afreen. Poetess. Address: B-117, Block 13-D, Gulshan-e-Iqbal, Karachi-75300. phone: 34979999.





Maryam Ghazala. Poetess. Address: 601-Vighnaharta Apat. Gaon Devi, near MH School, Thane. Mobile. 09819927369.

Meena Naqvi. Poetess. Address: Meena Nursing Home, Aghwanpur, Moradabad-244502. Mob. 09319232517.

 Najma Usman. Poetess. Address: 57-Rose Dale Road, EPSOM, Surrey KT17 2JH (UK).

 Shakila Rafeeq. Writer. Address. 1-Velma Drive, Toronto, Ont. M8Z 2N2, Canada.

Safia Siddiqui. Writer. Address: 10 Twyford Abbey Road, London, NW10, 7HG (UK).

Syed Nafees Bano Shama. Writer. Address: D-222, Abul Fazal Enclave, Jamia Nagar, New Delhi-110025. mob; 09213737821.

Shaista Fakhri. Writer. Address: C-9, Radio Colony, Auckland Road, Allahabad-211003. mob: 09454695090.

Renu Behl. Writer. Address: 1505/49-B, Chandigarh-160047. Phone 0132 2631077.

Haleema Firdaus. Writer. Address: A-1-414, Ganga Block, National Games Village, Banguluru.560047. Mob. 09448787013.

Hameeda Moin Rizvi. Writer. Address; 38 Gainsborough Road, New Malden, Surrey, KT3 5NU (UK).

Rahat Sultana. Writer. Address: Kashana-e-Asar, H. No. 20-4-226/9, Hyderabad-500002 (Andhra Pradesh).

Sameera Haidar. Writer. Address: H. No. 12-12, 85/2B, Opp. Court Complex, Arab Mohalla, Raichur-584101 (Karnataka).

 Zanfar Khokhar. Writer. Address: R/od, P/o Saj, Thana Mandi, District Rajouri-185212 (Jammu & Kashmir). Mob: 09858009983.