Tuesday, October 23, 2012

Article by Dr. Nusrat Jahan on Dr. Ahmad Ali Barqi Azmi

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، عصر حاضر کے شگفتہ بیان شاعر

(ڈاکٹر نصرت جہاں)

معروف شاعر،نقاد، دانشور ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ وہ1977میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے دہلی آئے اور اسی شہر کے ہو کر رہ گئے ۔وہ 25 دسمبر1954کو ہندوستان کے شہر اعظم گڑھ (یو پی)، محلہ باز بہادر میں رحمت الٰہی برقؔ اعظمی کے ہاں پیدا ہوئے جو ایک کہنہ مشق شاعر تھے اور جنہیں جانشینِ دا غؔ حضرت نوحؔ ناروی سے شرفِ تلمذ حاصل تھا۔ ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کے بڑے بھائی ڈاکٹر رحمت علی اکمل، ڈاکٹر شوکت علی شوکت اعظمی اور برکت علی برکت اعظمی بھی شعر و سخن سے خاص شغف اور لگاؤ رکھتے ہیں۔ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی درجہ پنجم تک مدرسہ اسلامیہ باغ میر پیٹو ، محلہ آصف گنج، شہر اعظم گڑھ کے طالب علم رہے، بعدازآں انہوں نے 1969 میں ہائی اسکول،1971میں انٹرمیڈیٹ، 1973میں گریجویشن، 1975میں ایم اے اردو اور 1976 میں بی ایڈ کی سند حاصل کی ۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے انہوں نے دہلی کا رخ کیا اور 1977 میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ،نئی دہلی سے ایم اے فارسی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور 1983 میں عملی طور پر میڈیا (آل انڈیا ریڈیو کے شعبۂ فارسی) سے وابستہ ہوگئے
فی الوقت بھی وہ شعبۂ فارسی کے انچارج ہیں۔
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی شاعری میں اپنے والد محترم رحمت الٰہی برقؔ اعظمی کو اپنا مرشد مانتے ہیں۔بقول ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی انہیں شاعری سے شغف والد محترم کے فیضِ صحبت سے ہوا کیونکہ بچپن کا بیشتر حصہ انہوں نے والِد محترم کے سایۂ عاطفت میں گزارا۔ میں سمجھتی ہوں کہ انہوں نے بچپن ہی سے زندگی کا مطالعہ جذباتی،جمالیاتی اور نفسیاتی پہلوؤں سے کیا ہے۔تفکر ان کے مزاج کا حصہ ہے لیکن وہ شاعری میں منطقی انداز اختیار نہیں کرتے ہیں بلکہ ہمیشہ جذبے اور خیال کو اہمیت دیتے ہیں۔ان کے یہاں تجربات و احساسات کا تنوع بھی ہے اور رنگینی بھی،شخصیت کا تضاد بھی ہے اور شعری تصورات کا ربط بھی۔وہ ہر چیز کو جمالیاتی ڈھانچے میں ڈھال لیتے ہیں۔زندگی کے ہر تجربے کا متبادل ان کے یہاں نقش جمال کی صورت موجود ہے۔مجموعی طور پر ان کی شاعری میں زندگی کا المیہ پہلو زیادہ نمایاں ہے اس میں غم عزت،غم ناموس،غم روزگار اور غم عشق کے علاوہ ان کی ذاتی نا آسودگیاں بھی شامل ہیں۔ان کے چند شعر قارئین کی خدمت میں حاضر ہیں۔
ناکامیوں سے کم نہ ہوامیرا حوصلہ
برقی قدم میں آگے بڑھاتا چلا گیا
برقی کے حالِ زارکی اس نے نہ لی وہ کر رہا تھا نامہ نگاری تمام رات
برقی کہیں ملے نہ ملے یہ بھی اس لئے
جو مل رہا ہے کیوں نہ وہ بڑھ کر سمیٹ لوں
پہلے جو اپنے اشاروں پہ چلا کرتے تھے
اب وہی راہ دکھاتے ہیں ہمیں چلنے کی
ڈاکٹراحمد علی برقیؔ اعظمی کی شاعری کا دائرہ کارنہ صرف وسیع ہے بلکہ ان کی شاعری میں موضوعات کاتنوع پڑھنے اور سننے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔ ان کی شعری خصوصیات کے بارے لکھے گئے ایک مضمون بعنوان’’برقی اعظمی کی اردو شاعری‘‘میں اسرار احمد رازی لکھتے ہیں کہ ان کے کلام میں جذبوں کی صداقت،کلام کی شیرینی و ملاحت اور عرض ہنر میں دیدہ و دل کی بصارت جگہ جگہ جلوہ افروز نظر آتی ہے۔ وہ نہ تو مافوق العادت اوہام وتخیلات کے اسیر ہیں اور نہ ہی ماورائیت کے دلدادہ بلکہ زمین پر ننگے پاؤں چل کر زمینی حقیقتوں کا بچشم خود مشاہدہ کرتے ہیں اور ان سے بے باکانہ آنکھیں ملا کر باتیں کرتے ہیں۔ ان کے افکار و خیالات میں قدامت یا باسی پن کا کوئی احساس نہیں ہوتا، تازہ کاری ان کاوصف خاص ہے۔ان کے یہ اشعار دیکھئے کہ کس طرح دعوت فکر دیتے ہیں۔
ہوتے ہیں ان کے نام پہ برپا مشاعرے
معیارِ شعر ان کی بلا سے گِرے گِرے
جن کا رسوخ ہے انہیں پہچانتے ہیں سب
ہم دیکھتے ہی رہ گئے باہرکھڑے کھڑے
جو ہیں زمانہ ساز وہ ہیں آج کامیاب
اہلِ کمال گوشۂ عُزلت میں ہیں پڑے
زندہ تھے جب تو ان کو کوئی پوچھتا نہ تھا
ہر دور میں ملیں گے بہت ایسے سر پھرے
برقی ستم ظریفئ حالات دیکھئے
اب ان کے نام پر ہیں ادارے بڑے بڑے
میرے نزدیک غالبؔ اور احمد علی برقیؔ اعظمی کو ایک جیسا عہد ملا ہے ۔غالب ؔ کے دور میں پرانی قدروں کی ٹوٹ پھوٹ،مغل تہذیب کے انحطاط اور سماجی اقدار کا رہا سہا بھرم اٹھ گیا تھا۔آج برقی ؔ اعظمی کو ایک ایسا دور ملا ہے جس میں اخلاقی قدریں ناپید ہو چکی ہیں۔خوشامد پسندی سکہ رائج الوقت ہے۔شاعری کے معیارکیپیمائش صرف اور صرف اقرباء پروری تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ اگر کوئی نیا شاعر انجمن باہمی ستائش کا ممبر ہے تو اسے دنوں میں میڈیا کی بدولت شہرت کے ساتویں آسمان پر پہنچا دیا جاتا ہے اور پھر وہ شاعر خود پسندی کی فصیل میں ہمیشہ کے لئے قید ہو جاتا ہے اور تمام حیات وہ یہ جان ہی نہیں پاتا کہ شاعری کا اعلی ٰ مقام کیا ہے اور اس نے کتنی منزلت طے کی ہے۔ احمد علی برقی اعظمی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے تمام نا مساعد حالات کے باوجود اندرون ملک اوربیرون ملک میں نام کمایا ہے جبکہ انہوں نے اپنے کسی تعلق کو اپنے ذاتی مفاد اور تشہیر کے لئے استعمال نہیں کیا۔اس غزل میں دوستوں کی بے اعتنائی کا تذکرہ کچھ یوں کرتے ہیں۔
اب دغا دیتے ہیں جو چْھپ کے مِلا کرتے تھے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا کرتے تھے
ایک وہ ہیں جنھیں وعدوں کا نہیں پاس و لحاظ
ایک ہم ہیں کہ جو کہتے تھے کیا کرتے تھے
کاش ہم اپنے بزرگوں سے سبق کچھ لیتے
’’اب وہی دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے‘‘
جانے کب دینگے وہ دروازۂ دل پر دستک
ہیں کہاں وعدہ فردا جو کیا کرتے تھے
اب مٹانے پہ تْلے ہیں وہی ہم کو شب و روز
جن کی تقدیر سنورنے کی دعا کرتے تھے
اب وہی راہ دکھاتے ہیں ہمیں چلنے کی
پہلے جو اپنے اشاروں پہ چَلا کرتے تھے
جوش میں ہوش نہیں تھا ہمیں اس کا برقیؔ
وہ بْرا کرتے ہیں ہم جن کا بھلا کرتے تھے
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کی شاعری میں اپنائیت اور آفاقی احساسات کچھ اس انداز سے نمایاں ہوتے ہیں کہ قارئین انہیں اپنے دل کے بہت قریب محسوس کرتے ہیں ۔ان کی شاعری میں وسعت، زبان و بیان کی دلکشی، لہجہ اور طرز ادا کی شیرینی،انداز بیان کی شگفتگی اور فکر و خیال کی رعنائی کے علاوہ موضوعات کا تنوع محققین کو راغب کرنے کے لئے کافی ہے۔ وہ عصرحاضر کے بیحد ترقی یافتہ سماج میں کلبلاتے درد سے پوری طرح باخبر ہیں۔ان کی شخصیت کی عبقریت پر بہت سے دلائل شاہد عد ل ہیں کیونکہ انہوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جن کا اردو ادب کی آبیاری میں بہت بڑا کردار ہے۔وہ تمام ادیبوں کو اپنی برادری خیال کرتے ہیں۔ان کے نزدیک اس بات کی زیادہ اہمیت نہیں ہے کہ لکھنے والا ہندوستانی یا پاکستانی۔تخلیق کار خواہ دنیا کے کسی حصے سے تعلق رکھتا ہو اگر اس کا فن پختہ اور یکتا ہے تو ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی اس تخلیق کار کو منظوم خراج تحسین پیش کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے۔ابھی حال ہی میں انہوں نے ایک پاکستانی شاعر سید تابش الوری کے غیر منقوط نعتیہ اشعار پر مشتمل کتاب ’’سرکارِ دو عالم ‘‘ پراپنے منظوم تاثرات پیش کیے ہیں جو یقیناًایک قابل ستائش عمل ہے ۔حیرت انگیز اطلاع یہ ہے کہ ڈاکٹر احمد علی برقی ؔ اعظمی کی سید تابش ؔ الوری سے کوئی جان پہچان یا شناسائی نہیں ہے۔سید تابشؔ الوری نے جواب کچھ اشعار برقیؔ صاحب کی خدمت میں پیش کیے ہیں جن میں ان کے فن و فکر کاذکر کیا گیا ہے ۔
اخلاص و اشتیاق کا پیام، جناب احمد علی برقیؔ کے نام
حضرت برقیؔ نے بھیجا دلنشیں شعروں کا ہار
فکر خیز و معنی انگیز و بلاغت آشکار
لفظ تابندہ نگینوں کی طرح ترشے ہوئے
حسنِ صورت،حسن فن،حسن نظرکے شاہکار
شعر و فن میں کہکشاں احساس کی اتری ہوئی
ندرتِ فن رفعت افکار کے آئینہ دار
قادر الالفاظ پختہ فکر برقیؔ اعظمی
شاعری میں دہلیِ مرحوم کا حسن و وقار
آجتک تاریخ کا جھومر ہے دلی کا ادب
آجتک یہ سر زمیں تہذیب کی سرمایہ دار
ذہن کا بُراقؔ اخلاص و عمل کا آئینہ
دل کے گوشے گوشے میں روشن چراغِ اعتبار
دست بستہ لفظ و معنی سر بسجدہ فکر و فن
منفرد اسلوب ،پرواز تخیل،تازہ کار
دفعتاً حسنِ سماعت کے دریچے کھل گئے
اجنبی کو آئی کتنی دور سے دل کی پکار
کلمہِ تحسین ان کا موجب عز و وقار
میں سراپا انکسار و انکسار و انکسار
یہ بات قابل رشک ہے کہ ان کا قلم بے تکان لکھتا ہے، خوب لکھتا ہے اور بہت تفصیل سے لکھتا ہے ان کا اپنا رنگ ہے اپنا زاویہ نگاہ اورالگ شناخت ہے۔ ان کے کلام کی خصوصیات پر کچھ لکھناسورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ تسلسل، تغزل، انداز بیان، روانی الفاظ وترکیبات کی جیسے ایک جوئے شیررواں دواں نظر آتی ہے۔وہ انتہائی زود گو، خوش گو، بسیار گو شخصیت کے مالک ہیں۔ فکر و فن کی باریکیاں ان کے آگے طفل مکتب نظر آتی ہیں بلا شبہ برقی اعظمی ایک عبقری شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے اپنی مجموعی شاعری سے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک مخصوص دھارے میں بندھنے کے عادی نہیں ہیں بلکہ تنوع ان کی فطرت میں شامل ہے۔ان کی اس غزل کا رنگ دیکھئے۔
کرشمے غمزہ و ناز و نظر کے دیکھتے ہیں
دیار شوق سے ہم بھی گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے خوشنما منظر ہے گُلعذاروں سے
اگر یہ سچ ہے تو ہم بھی ٹھہر کے دیکھتے ہیں
ہے اس کی چشمِ فسوں ساز جیسے گہری جھیل
شناوری کے لئے ہم اتر کے دیکھتے ہیں
خرامِ ناز میں سرگرم ہے وہ رشکِ گل
چمن میں غنچہ و گُل بھی سنور کے دیکھتے ہیں
جدھر جدھر سے گزرتا ہے وہ حیات افروز
نظارے ہم وہاں شمس و قمر کے دیکھتے ہیں
حریمِ ناز معطّرہے اس کی آمد سے
مزاج بدلے نسیمِ سحر کے دیکھتے ہیں
کبھی ہے خشک کبھی نم ہے چشمِ ماہ و شاں
نظارے چل کے وہاں بحر و بر کے دیکھتے ہیں
جو خواب دیکھا تھا احمد فرازؔ نے برقیؔ
ہم اس کو زندۂ جاوید کر کے دیکھتے ہیں
روشن خیال ادیبوں،دانشوروں اور شاعروں نے موضوعاتی شاعری کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس صنف میں طبع آزمائی کی۔ یہ بات باعثِ فخر ہے کہ ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی نے اردو کی موضوعاتی شاعری پر بھر پور توجہ دی ہے۔ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ عظیم تخلیق کاروں کو منظوم خراج تحسین پیش کر کے ان کا معاشرے میں وقار بلند کر رہے ہیں ۔ماضی میں مولانا محمد حسین آزادکی مساعی سے اردو میں موضوعاتی شاعری کو ایک اہم مقام ملا۔ ا ن کے بعد یہ روایت مسلسل جاری رہی ہے۔ معروف شاعرمحسن بھوپالی کا ایک شعر ی مجموعہ ’’موضوعاتی شاعری‘‘ کے نام سے آج سے پندرہ برس پہلے شائع ہو چکاہے۔ مرزا اسدللہ خان غالب،میر تقی میر،احمد فراز،پروین شاکر،فیض احمد فیض،سید صادقین نقوی،مظفر وارثی اور متعدد عظیم تخلیق کاروں کوڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی نے جس خلوص اور دردمندی سے خراج تحسین پیش کیا وہ نہ صرف ان کی عظمت فکر کی واضح مثال ہے ۔ ان کا اسلوب ان کی ذات ہے۔ وہ انسانی ہمدردی کے بلندترین منصب پرفائز ہیں۔ کسی کا دکھ درد دیکھ کر وہ تڑپ اٹھتے ہیں ۔ان کی موضوعاتی شاعری کا تعلق کسی ایک فرد،علاقے یا نظریے سے ہرگز نہیں ان کی شاعری میں جو پیغام ہے اس کی نوعیت آفاقی ہے اور وہ انسانیت کے ساتھ روحانی وابستگی اور قلبی انس کا بر ملا اظہارکرتے ہیں۔ ان کا یہ اسلوب انھیں ممتاز اورمنفرد مقام عطا کرتا ہے۔
ان کی غزلیں تغزل سے بھر پوراور فنکارانہ حسن کاری سے مزین ہوتی ہیں۔ تراکیب کی خوبصورتی، تشبیہات کی ندرت،الفاظ کا جادوئی دروبست، نرم وخوشنما قافیوں کے موتی، مشکل اضافتوں کے باوجودمصرعوں کی روانی اور ان سب پر مستزاد آپ کی کسر نفسی دلوں کو متاثر کرتی ہے۔ ڈاکٹربرقی اعظمی کی غزلیں نہایت خوبصورت ردیفوں میں طرز ادا کی خوشنمائی کے ساتھ ساتھ انفرادی طر زِفکر اور جدت پسندی کی بھی نمائندگی کرتی ہیں۔ وہ تجربات کی دلکشی کوکلام کی روح میں سموکر احساس کی خوشبو جگاتے ہیں اور قاری کے دل و دماغ کومتاثر کرکے جمالیاتی شعور کی آبیاری کرتے ہیں۔ ان کی سخنوری، طبیعت کی موزونیت اور روانی ہمیشہ ہی قائل کرتی ہے۔ ان کے ان اوصاف کا ہر شخص مداح ہے۔ فیضؔ ، ساحر،ؔ مجروحؔ ، جگر، حسرتؔ ،فانیؔ ، پروین شاکر، اور ناصر کاظمیؔ وغیرہ ان کے پسندیدہ شعرا ہیں۔ادیبوں میں سرسید احمد خاں اور شبلی نعمانی سے بیحد لگاؤ رکھتے ہیں۔وہ زندگی کی ستاون بہاریں گزار چکے ہیں مگر آج بھی وہ نوجوانوں سے کہیں زیادہ چاک و چوبند نظر آتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں صحت کے ساتھ لمبی زندگی دے تاکہ وہ یونہی اردو ادب کی خدمت کرتے رہیں۔

No comments: