Tuesday, September 24, 2013

Naqshband Qamar Bhopali ki manzoom tareekh "Hammasa" par ek taairna nazar: Muslim Saleem

نقشبند قمرؔ نقوی بھوپالی کی مایۂِ ناز تخلیق حمّاسہ جلد اوّل پر ایک طائرانہ نظر۔ مسلمؔ سلیم
تبصرے سے پہلے میں ایک وضاحت کردو کہ نقشبند قمرؔ نقوی بھوپال میں تولد ضرور ہوئے لیکن پاکستان ہجرت کرگئے اور اب ٹلسا، یو۔اس۔اے میں سکونت پذیر ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ وہ بھوپالی کہلا کر بھی اب بھوپالی نہیں ہیں جبکہ خادم بھوپال میں تولد نہ ہوکر بھی اب بھوپالی ہے۔ ایک اور اتفاق یہ ہے کہ منصب منزل جہاں نقشبند قمرؔ نقوی صاحب تولد ہوئے تھے میرے غریب خانے سے کچھ ہی فاصلے پر ہے اور میں دفتر آتے۔جاتے روز ادھر سے گذرتا ہوں۔ لیکن اس سے یہ عندیہ ہرگز نہیں لیا جائے کہ تبصرہ کا مقصد بھوپالیت یا ذاتی تعلقات سے ہے کیوں کہ میں آج تک نقشبند قمرؔ نقوی بھوپالی سے نہیں ملا ۔ان سے میری انٹرنیٹ ملاقات تب ہوئی جب میں نے ۳؍ برس پہلے کسی رسالے سے ان کی تصویر اور کلام لے کر اپنی ویب ڈائریکٹری ’’اردو پوئٹس انیڈ رائٹرز آف اردو ‘‘ میں شامل کرکے ان کو اس سے مطلع کیا تھا۔تب سے اب تک شاید کچھ ہی ای۔میل کا تبادلہ ہو ا ہوگا کہ اچانک ایک دن ان کی کتاب حماسہ کی پہلی جلد موصول ہوئی۔ میں نے اسکا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کتاب سے قارئین کو رو شناس کراؤں۔
نقشبند قمرؔ نقوی بھوپالی کی حمّاسہ اردو ادب کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے۔یہ ہندوپاک کی منظوم تاریخ ہے (محمد بن قاسم سے تقسیم ہند تک اور پھر پاکستان) ۔ کتاب ۸ جلدوں میں مرتب کی جانی ہے۔ دو جلدیں شایع ہو چکی ہیں۔ ایک زیرِ طبع ہے جبکہ ۵ ؍معرض تحریر میں آنی ہیں۔ اردو میں اس سے مماثل نوعیت کی واحد کتاب حفیظ ؔ جالندھری کی شاہنامۂِ اسلام ہے۔ لیکن یہ بیشتر سیرۃ النبی ﷺ مبنی ہے اور اسکے واقعات چند غزوات و متعلقات تک محفوظ ہیں۔ اسکے اشعار کی تعداد بھی محض چند ہزار ہے۔ اسکے مقابلے میں حماسہ جلد اول ہی میں ۶۳۰۰؍ اشعار ہیں۔ ایلےئڈ کے خالق ہومر کے سامنے ایک افسانہ تھا جسکے ذریعے وہ ہر عقلی اور غیر عقلی واقعات کو بیان کرتا چلا گیا ہے۔ فردوسی کے شاہنامے کا زمانہ بھی ماقبلِ تاریخ ہے۔اردو مراثی میں بھی اسلامی تاریخ کے حوالے موجود ہیں۔ ان کے بعد حفیطؔ نے اس عمل کو ضخامت اور اجتماعیت بخشی۔ لیکن نقشبند قمرؔ نقوی بھوپالی کی حمّاسہ مجھے ان سب سے آگے کی چیز معلوم ہوتی ہے۔
بقول ڈاکٹر رئیس احمد خان قمر ؔ نقوی کی تاریخِ پاکستان وہند پر گہری نظر ہے۔ شاعرانہ مجبوریوں سے قطع نظر انھوں نے تاریخی حقائق سے رو گردانی نہیں کی ہے اور سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔ واقعات کو ایسے ہی مظوم کیا ہے جیسے وہ مستند تواریخ میں درج ہیں۔ یہ بذاتِ خود ایک بڑا کارنامہ ہے۔
لیکن نقشبند قمرؔ نقوی بھوپالی نے واقعات اور حالات منظوم ہی نہیں کیا بلکہ ان کا مورخانہ تجزیہ بھی کیا ہے۔ وہ صرف شاعرہی نہیں ہیں، غوروفکر کرنے بھی جانتے ہیں۔ ان کے یہ تجزئے ان کی تاریخی بصیرت کے شاہد ہیں۔
بقول محمد نظام الدین اس منظوم فاضل مورخ اور شاعر نے نہ صرف یہ کہ تاریخی واقعات کو نقشہ کھئنچ دیا ہے بلکہ ’’حماسہ‘‘ کی ادبی حیثیت بھی بہت بلند ہے جس کے مطالعہ سے ذہن کو تسکین اور ذوق کو آسودگی ملتی ہے کیونکہ حمّاسہ میں تاریخ بھی ہے، ادب و فکر بھی اور غنا ء بھی۔
مورخین اور ادباء پر تاریخ کا لکھنا گویا لازم ہے البتہ تاریخ کو مفصل، مکمل اوعر مستند حالت میں نظم کرنے بہت دشوار کام ہے۔ نقشبند قمرؔ نقوی بھوپالی کی یہ تصنیف ایک گراں مایہ کتاب ہے اور امید ہے کہ قارئین نہ صرف اس سے متاثر ہونگے بلکہ اسے ہر طبقۂِ خیال میں فکر و ادب کا اعلیٰ مقام حاصل ہوگا۔
نمونۂِ کلام
ضروری ہے کہ کلام کی ایک جھلک بھی قارئین کو دکھا دی جائے۔ یہاں میں کتاب کے ’’نقطۂِ آغاز ‘‘ کا پہلا بند نقل کر رہا ہوں۔
چراغِ خیالات روشن ہوا ؍ تخیّل گلستاں بہ دامن ہوا ؍ فروزاں ہوئی شمعِ بزمِ سخن ؍ مہکنے لگی خوشبوئے علم و فن ؍ درخشاں ہوا ماہتابِ خیال ؍ بچھا ہر طرف ایک ایک پُرنور جال ؍ فضا ذہن کی ساحرانہ ہوئی؍ ہر اک بات رنکیں فسانہ ہوئی ؍ مہکتا ہے الفاظ کا گلستاں ؍ معانی کا رخشندہ ہے ارمغاں ؍ بہار آفریں زر فشاں عنبریں ؍ مضامین کے عارضِ آتشیں ؍ مرصع ، مزین ، مکمل بہار ؍ سراپا منور، مجسم نگار ؍ شبستانِ جاں نور افزا ہوا ؍ تخیل میں طوفان برپا ہوا ؍ ضیا پوش ہونے لگا حرف حرف ؍ مضامین حاضر ہوئے صف بہ صف ؍ زبانِ فصاحت پہ اسرارِ فن ؍ بلاغت کا ہے پُر بہاراں چمن ؍ کھلا مہر کا در، سحر ہوگئی ؍ نظر اٹھ کے حسنِ نظر ہو گئی ؍ گلستانِ وجداں کی سر حد کے پار ؍ شب وروز رہتے ہیں سرگرمِ کار ؍ سجاتا ہے لمحات کا لالہ زار ؍ خزاں کی ہتھیلی پہ فصلِ بہار ؍ہلاتا ہوں خوابوں کی زنجیر کو ؍ پروتا ہوں نظروں میں تعبیر کو ؍ لہو میں بھگوتا ہوں تحریر کو ؍ کئی رنگ دیتا ہوں تصویر کو ؍ سیاحت کروں ملکِ تخئیل کی ؍ ذرا دے صحبت ہو جبریل کی ؍ کروں جمع گرد اپنے ماہ و نجوم ؍ رتوں ، موسموں، رنگ و بو کا ہجوم ؍ خیالوں کو اذنِ سفر دے چلوں ؍ شبِ شعر کو میں سفر دے چلوں ؍ حقیقت سے پردہ اٹھاتا چلوں ؍ صفاتِ قلم بھی دکھاتا چلوں ؍ قلم رقص کرتا بصد ناز اٹھے ؍ تخیّل بہ تقریبِ پرواز اٹھے
کتابت کی اغلاط
لیکن کتابت کی اغلاط نے کتاب کے حسن کو مجروح کیا ہے۔ پہلی جلد کی کتابت کی اغلاط کی نشاندہی میں یہاں تنقید کے لئے نہیں بلکہ قارئین کی رہنمائی کے لئے کر رہا ہوں، اور اس لئے بھی کہ آئندہ اشاعت میں ان کو دور کیا جا سکے۔
صفحہ ۲۳ و القلم کو والقلم پڑھا جائے۔ صفحہ ** صفحہ ۴۴۔۔۔۔۲۹ ؁ھ کی جگہ ۹۲ ؁ھ ** صفحہ۷۰۔۔۔اجل کا جوتا ہے اک دن پیام کی جگہ اجل کا جو آتا ہے اک دن پیام ** صفحہ ۷۰ ۔۔اور نساں کی جگہ انساں ** صفحہ ۷۲ ۔ جہاں با نئی کو جہاں بانئِ** صفحہ ۷۳ ۔۔آحرش کو آخرش ** صفحہ ۷۳۔۔ندیموں آخر سنبھالا اسے کی جگہ ندیموں نے آخر سنبھالا اسے ** صفحہ ۷۸ عداوت کے طوفاں کا رخ پھیر دے کی جگہ عداوت کے طوفاں کا رخ موڑ دے ** صفحہ۸۴۔۔نمایاں ہوا مشرق سے آفتاب میں مشرق کی جگہ شرق ** صفحہ ۸۶؍ بجے کو ہوا ہار نمے کی جگہ ہارنے** صفحہ ۸۹؍ مناسب نہ مجھی مگر جنگِ عام میں مجھی کی جگہ سمجھی ** صفحہ ۹۲؍ جنوں سرفروشی کا بھی یادہ ہو کو زیادہو پڑھیں ** صفحہ ۹۹؍ ہر اک نگیں کو رنگیں ** صفحہ ۱۰۲؍ آب رو دوں کی جگہ آب رودوں ** صفحہ ۱۰۳؍ سوا راس جگہ سوار اس کے** صفحہ ۱۰۷؍ تھے نہراہ اسپ و شتر بے شمار میں نہراہ کی جگہ ہمراہ ** صفحہ۱۰۸؍ بڑا شاہ غزنی شہرا ہوا کی جگہ بڑا شاہ غزنی کا شہرا ** صفحہ ۱۰۹؍ ملا فوجِ غزنی حکمِ سفر کی جگہ فوجِ غزنی کو حکمِ سفر** ْ ص ۱۱۵؍ گولیار راس کی جگہ گولیار اس کی ** ص ۱۳۴؍ تورایخ کی جگہ تواریخ ** ص ۱۳۹ نئی شاہرا ہیں کی جگہ نئی شاہراہیں ** ص ۱۴۶؍ کا روانِ شمیم کی جگہ کاروانِ شمیم ** ص ۱۴۸؍ حراسان کی جگہ خراسان ** ص ۱۴۹؍ حروج کی جگہ خروج ** ص ۱۴۹؍ علاقے جو اطراف کے تھے لے لئے کی جگہ علاقے جو اطراف کے تھے لئے ** ص ۱۷۹ وہ ناقوس و گھنٹے جاتے ہوئے کی جکہ وہ ناقوس و گھنٹے بجاتے ہوئے ** ص ۱۸۵ ہوا ان پہ قطدعنہ کوئی اثر کی جگہ ہوا ان پہ قطعاً نہ کوئی اثر ** ص ۱۹۹؍ خلافت گئی آلِ عباس کی جگہ خلافت گئی آلِ عباس میں ** ص ۲۰۰؍ کئی صوب بڑھ کر ریاست بنے کی جگہ کئی صوبے بڑھ کر ریاست بنے ** ص ۲۰۴؍ نیا بت کی جگہ نیابت** ۲۰۸؍ لبادوں مے نیچے سے نلی زرہ کی جگہ نکلی زرہ ** ۲۱۰؍ دلہی کی جگہ دہلی ** ۲۱۲ ؍ کاملا کی جگہ کاملاً ** ۲۲۰؍ وہ سلطاں کی خدمت میں حاجر ہوا کی جگہ حاضر ہوا ** ۲۲۰؍ نہ تسخیر ہندوستاں خیال کی جگھنہ تسخیر ہندوستاں کا خیال ** ۲۲۱؍ سمجھتے تھے سب اس لی اعلیٰ صفات کی جگہ سمجھتے تھے سب اس کی اعلیٰ صفات ** ۲۲۱؍ فطرتا، عدیا اور مزاجا کی جگہفطرتاً، عدےًا اور مزاجاً ** ۲۲۲؍ ومجھتا تھا کی جگہ سمجھتا تھا ** ۲۲۳مسلاں کا اخراج ممکن کی جگہ مسلماں کا اخراج ممکن نہپیں ** ۲۲۵؍ جو تنظیم ملکی تھی وہ ساری رہی کی جگہ جو تنظیم ملکی تھی ساری رہی ** ۲۲۸؍لہا کی جگہ لیا ** ۲۲۸؍ کاملاً کی جگہ کاکلاً ** ۲۲۹؍ امھا کی جگہ اٹھا ** ۲۳۰؍ گرچہ کی جگہ اگرچہ ** ۲۳۸؍ بیدرائی کی جگہ بیداری، مصرف ذکر خدا کی جگہ مصروفِ ذکرِ خدا ، جل وہ کی جگہ جلوہ ** ۲۳۹ ؍ تو پھر کاملہ کی جگہ کاملاً ** ۲۴۱؍ یہاں ملی دین کو شہریت کی جگہ یہاں پر ملی دین کو شہریت ** ۲۴۲؍ یزم کی جگہ بزم ** ۲۴۴؍ ۱۔ انجان کی جگہ زنجان ۲۔ ادھر شہر مے آداخل کی جگہ ادھر شہر میں آپ داخل ۳۔ چشمِ بصرت کی جگہ چشمِ بصیرت ** ۲۴۶؍ وہ طلمامت کی جگہ ظلمت** ۲۴۷؍ ہوا خلاق کی جگہ ہواخلاق ** ۲۴۹؍ بہا جیسے ہنگام کی جگہ بپا جیسے ہنگام ** ۲۵۰؍ زما میں ایماں کی جگہ زمانے میں ایماں ** ۲۵۱؍ ہوئی قطع را، سلو کو صفا کی جگہ ہوئی قطع راہِ سلوک و صفا ** ۲۵۱؍ جو یوں معرفت میں نگانہ کی جگھ یگانہ ۲۔ توہ رون سے کی جگہ تو ایران سے ۳، کئی رہ مایان دیں کی جگہ رہنمایانِ دیں ۴۔ پیر ان پیر کی جگہ پیرانِ پیر ۴۔ سہرور دی کی جگہ سہروردی ** ۲۵۲؍ ذرا سار کا کی جگہ ذرا سا رکا ۲۔ زرر فشاں کی جگہ زر فشاں ۳۔ مسندر شد کی جگہ مسندِ رشد ** ۲۵۹؍ہوا مسند آراج و آرام شاہ کی جگہ ہوا مسند آراجو آرام شاہ ** ۲۶۱؍ نہ ظاہر عیاں ہے نمہ کی جگہ نہ ظاہر عیاں ہے نہ ** ۲۶۱؍ قبیلہ تھا ترکی نذاد کی جگہ نژاد ** ۲۶۱؍ مصد شوق کی جگہ بصد شوق **
۲۶۳؍ نہ بھلے گا کہ جگہ نہ بھولے گا قبا چست کی جگہ قباچست ** ۲۶۴؍ مرتب کیا اس کو ہٹھیار کی جگہ ہتھیار ۲۔ قیادت کی تھیں قدرتا کی جگہ قدرتاً ۳۔ رہبری ک نکات کی جگہ رہبری کے نکات ** ۲۶۸؍ سرشتا کی جگہ سرشتاً ۲۔ سمجھتا تھا حالات سارے جگہ حالات کے سارے ۳۔ ششہی کی جگہ شہی ** ۲۶۹؍مسلمان طبعا کی مسلمان طبعاً ** ۲۷۱؍ بڑھا ان کی ناجب کی جگہ بڑھا ان کی جانب ۲۔ لیا ہاتھ میں تیہغۂ خون بار کی جگہ لیا ہاتھ میں تیغۂِ خون بار ۳۔ کی گرم بازار کی جگہ کیا گرم بازار ۴۔ کیا اک جماعت نے فعری کی جگہ فوری ** ۲۷۳؍ ہو اگرم کی جگہ ہوا گرم ۲۔ بتدریض کی جگہ بتدریج ** ۲۷۴؍ سیاست مدارا ور مردم شناس کی جگہ سیاست مدار اور مردم شناس ۲۔عبادت ریاضت میں تھانی نام کی جگہ عبادت ریاضت میں تھا نیک نام ۳۔ شکوہ و جلالت جنم سحر کی جگہ شکوہ و جلالت میں نجمِ سحر ** ۲۷۵؍ خو ا رزم کی جگہ خوارزم ۲۔ خوا رو پست کی جگہ خواروپست ** ۲۷۶؍ بہ عزم و غا کی جگہ بہ عزمِ وغا ** ۲۷۷؍ خوا رزم کی جگہ خوارزم ۲۔ توریخ کی جگہ تواریخ ۳۔ ایسا و بال کی جگہ ایسا وبال ** ۲۷۸؍ ویں تھا کچھ امید کی جگہ وہیں تھا کچھ امید ۲۔ سالطان کی جگہ سلطان ۳۔ ھرتا کی جگہ بھرتا ** ۲۸۰؍ تدبی رہو کی جگہ تدبیر ہو ۲۔ فت نے کی جگہ فتنے ۳۔ خوا رزم کی جگہ خوارزم ** ۲۸۱؍کوئی اس کی مکل میں کی جگہ کوئی اس کی مشکل میں ** ۲۸۲؍ نرمی وقت کی جگہ نرمی کا وقت ۲۔ سدھ کی جگہ سندھ ** ۲۸۳؍ کیا اس اجرائے کی جگہ کیا اس نے اجرائے ۲۔ بنہ تھا جس کی کی جگہ نہ تھا جس کی ** ۲۸۵؍ کہ ظاہر تھا جو لچھ کی جگہ جو کچھ ۲۔ وہ سر ا تارا کی جگہ سر اتارا ۳۔ کاملا کی جگہ کاملاً ** ۲۸۶؍ گرانے سے آنسو تیو کی جگہ گرانے سے آنسو تو ۲۔ ناظم وصلعدار کی جگہ ناظم و ضلعدار ** ۲۸۹؍ مسلاں کی طاقت کی جگہ مسلماں کی طاقت ۲۔ اصولا کی جگہ اصولاً ** ۲۹۱؍ موء دب کی جگہ مؤدّب ۲؍ ندادورب اشی کی جگہ ندا دورباشی ۳۔ علم بادشاہانہ سایہ فگن کی جگہ علم بادشاہانہ تھا سایہ فگن ** ۲۹۲؍ ہمتنی کی جگہ ہمّت نہیں ** ۲۹۴؍ کریں بڑھ کے بھیلسا پائمال بڑھ کے اب بھیلسا ** ۲۹۵؍ ہاٹھیوں کی جگہ ہاتھیوں ۲۔ نیزیہ کی جگہ نیزے ** ۲۹۶؍ یہ کیفیت اضطراری کی جگہ یہی کیفیت ** ۲۹۷؍ جو کچھ دن رے کی جگہ جو کچھ دن رکے ** ۲۹۹؍ کاملا کی جگہ کاملاً ۲۔ حراج کی جگہ خراج ** ۳۰۰؍ یہ ب صغیر ایک ملک و سیع کی جگہ یہ برِّ صغیر ایک ملکِ وسیع ۲۔ کائد کی جگہ قائد ** ۳۰۰؍ معتمفد کی جگہ معتمد ** ۳۰۱؍ جو سلطاں کی جانبا کی جگہ جو سلطاں کی جانب ** ۳۰۲؍ اتلجا کی جگہ التجا ۲۔ گردش میں آ مسرت کی جگہ گردش میں آیا ** ۳۰۳؍ حومت کی جگہ حکومت ۲۔ کروں تیغِ دو دھار کوب نیام کی جگہ کو بے نیام ۳۔ جارہ کی جگہ جاری ** ۳۰۴؍ حرکت کا دل کی جو حساب کی جگہ حر کت کا دل کی کیا جو حساب ** ۳۰۷؍ ہو جرأت کا موقعہ تع کی جگہ ہو جرأت کا موقع تو ** ۳۰۹؍ ادا رات لازم کی جگہ اداراتِ لازم ** ۳۱۳؍ اندھیری ہو ہئی کی جگہ اندھیری ہوئی ** ۳۱۴؍ امروں وزیروں کی جگہ امیروں وزیروں ۲۔ کسی اہلیت کی نمہ کی جگہ کسی اہلیت کی نہ ** ۳۱۴؍ سرشتاہی کی جگہ سرشتاً ہی ۲۔ شراب بو کباب کی جگہ شراب و کباب ** ۳۲۰؍ بن ما حکمراں کی جگہ بنا حکمراں ** ۳۲۲؍ اس کا عہد و فا کی جگہ عہدِ وفا ۲؍ برا فروختہ کی جگہ برافروختہ ** ۳۲۳؍ مسائل کی تصیل کی جگہ مسائل کی تفصیل ** ۳۲۴؍ ہوئے اہل شیر کی جگہ اہلِ شہر ۲۔ مگر اک دفعہ اٹھا پڑیں کی جگہ اٹھ پڑیں ** ۳۲۹؍ دئے اس نے اجام کی جگہ انجام ** ۳۳۰؍ ہوئی تخت پر آکے جل وہ گذار کی جگہ جلوہ گذار ** ۳۳۳؍ ولہی سازشوں کی جگہ وہی سازشوں ** ۳۳۴؍ گرچہ وہ سلطان کی جگہ اگرچہ وہ سلطان ** ۳۳۵؍ ادھر چند ڈاکو بھی منتظر کی جگہ ادھر چند ڈاکو بھی تھے منتظر ۲۔ دلی کے شکری کی جگہ لشکری ** ۳۳۹؍ حرابی کی جگہ خرابی ۲۔پتھا شہزادہ کی جگہ تھا شہزادہ ** ۳۴۱؍ ملا ہپند میں کی جگہ ہند میں ۲۔ اہمتام کی جگہ اہتمام ۳۔ امیروں کو اس کا بہت م ہوا کی جگہ غم ہوا ** ۳۴۲؍ ہوئی سلح کی ایک صورت کی جگہ ہوئی صلح کی ۲۔ مرتب ہو از سر نو کی جگہ مرتب ہوا ازسرنو ** ۳۴۴؍ خود اسے نہ تھا ان کاممکن علاج کی جگہ خود اس سے نہ تھا ان کاممکن علاج ** ۳۴۶؍ بنے یہ غلام اور یچے گئے کی جگہ بنے کہ غلام اور بیچے گئے ** ۳۴۹؍ تھے یہ لوگ تھے فوج رکھنے میں سست کی جگہ کہ یہ لوگ تھا فوج رکھنے میں سست ** ۳۵۱؍ نتیجہ کہ امن و ما ں کی جگہ امن و اماں ** ۳۵۲؍ ہوئے کا ملا کہ جگہ ہوئے کاملاً ** ۳۵۳؍ نہ پچناب میں کی جگہ نہ پنچاب میں ۲۔ بیٹا بججیا وہاں کی جگہ بیٹا بھیجا وہاں ** ۳۵۴؍ علاقوں کو تا راج کی جگہ تاراج
۳۵۷؍ چناچہ کی خسرو وارث مرا کی جگہ چناچہ کیخسرو ہے وارث مرا ** ۳۶۲؍ حقائق کا ہے کا ملا بندوبست کی جگہ کاملاً بندوبست ** ۳۶۳ ؍ لازما کی جگہ لازماً ۲۔ کاملا کی جگہ کاملاً
فنّی مشورہ
صفحہ ۳۳ ؍سچائی پہ تھا منحصر کاروبار۔کو ۔صداقت پہ تھا منحصر کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ ** کہیں بلََخ (بَ لَ خ) اور کہیں بلخ ( بَ ل خ ) استعمال ہوا ہے۔ ** صفحہ ۱۰۶؍ جدھر بھی یہ ہاتھی پلٹ کر گئے؍سواروپیادے کچل کر گئے۔ اس شعر کے دونوں مصرعوں میں ایک ہی قافیہ استعمال ہوا ہے۔ ** صفحہ ۱۰۹؍ ملاؤں گا میں خاک و خوں میں اسے ؍ پڑھاؤں گا ایسا سبق میں اسے ۔ اس شعر میں ایک ہی قافیہ دونو ں مصرعوں میں ہے ** صفحہ ۱۸۷ ؍ نظر اک دفعہ پھیر اٹھی سوئے رن (فارسی اور ہندی الفاظ سے ترکیب بنائی گئی ہے ** ص ۱۷۹ وہ ناقوس و گھنٹے بجاتے ہوئے اس مصرعے میں بھی عربی اور ہندی لفظ کو واو عطف سے جوڑا گیا ہے۔ ** ص ۲۴۸ ؍ ولایت کا ایک اور در کھل گیا۔۔۔مقام حقیقت کا در کھل گیا۔۔۔۔ ایک ہی قافیہ دونوں مصرعوں میں ** ص ۳۲۸؍ خواتین کا کوئی حصہ نہ تھا۔۔کوئی صنفِ نازک کا حصہ نہ تھا۔۔ایک ہی قافیہ دونوں مصرعوں میں ** ۳۶۶؍ مہذب ابھی تک تھا اعلیٰ و زیر۔۔تھا مشکل کہ ہوتا کسی سے وہ زیر۔۔ایک ہی قافیہ ** ۳۳۹؍ خزانے سے لیتا نہ تھا کوئی مال۔۔سمجھتا رعایا کا ہے سارا مال۔۔ایک ہی قافیہ ** ۳۴۰؍ حقیقت میں محمود خود نرم تھا۔۔طبیعت میں اس کی بہت حلم تھا۔۔نرم اور حلم قافیے نہیں ہو سکتے ** ۳۴۲؍ اس عہدے کا وہ مستحق ہی نہ تھا۔۔وہ خواجہ سرا تھا مدبر نہ تھا۔ ایک ہی قافیہ ** ۳۴۳؍ بہت روز وہ مسند آرا رہا ۔مدبر تھا وہ گلشن آرا رہا۔۔ ایک ہی قافیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنف کا پتہ ۔ نقشبند قمرؔ نقوی بھوپالی ۔ ۶۴۴۶۔ ٰنڈیانا پولس، ٹلسا، او۔کے۔۷۴۱۳۶، یو۔ایس۔اے۔ سن اشاعت ۲۰۰۹؍۔ قیمت۔۳۰۰ روپے۔ ناشر۔ ایجوکیشنل بک ہاؤس، ۳۱۰۸،وکیل اسٹریٹ، کوچہ پنڈت، لال کنواں، دہلی۔۶، انڈیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمؔ سلیم، بھوپال ، مورخہ ۲۴؍ ستمبر ۲۰۱۳ ؁ ء

No comments: