ارم زہراء۔کراچی
وہ کیا امور ہیں جن کی وجہ سے تخلیق کار بقائے دوام کا تاج سجا کر شہرتِ عام کے دربار میں زرنگار مسند پر متمکن نظر آتا ہے، کن خصوصیات کی بناء پر وہ معاصرین سے ممتاز قرار پاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں لا تعداد لکھنے والے رزقِ ہوا ثابت ہوتے ہیں؟
میری نظر میں جتنی بڑی تخلیقی شخصیت ، اتنا ہی بڑا تخلیق کار، اتنا ہی بڑا ثر اور اتنی ہی تاثیر ۔ لیکن اسکے باوجود با صلاحیت تخلیق کاروں کی اکثریت خود کو منوانے میں ناکام رہی ہے جبکہ ایک جریدۂِ عالم پر اپنا نام سنہری حروف میں لکھوا لیتا ہے۔ اور وہ نام ہے ڈاکٹر سلیم واحد سلیم۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم اپنے قلمی سفر کی ابتداء سے لے کر آخر ی سانس تک مملکتِ شعروسخن کی گلیوں کو اپنے فن کی خوشبو سے مہکاتے رہے۔
میں نے جب ان کی کلیات کا بغور مطالعہ کیا تو جانا کہ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم خاموشی سے اردو اد ب کی بیش بہا خدمات انجام دے رہے تھے۔ انھوں نے بے حد لگن کے ساتھ اپنے جنوں کی کرشمی سازیوں سے بازار عقل کو روشن کی تدبیریں کی ہیں۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کے کلام میں داخلی اور خارجی رنگوں کی منظر کشی جمالیات کی ایک انوکھی چھب میں ڈھل کر ہمارے احساسات میں حزن و طرب اور نشاط و ملال کے گہرے تاثرات نقش کرتی ہے۔ ان کی شخصیت میں ہنگامہ خیزیاں اس قدر تہہ در تہہ ہیں کہ انکے اندر جھانکتے ہوئے سانسیں بے ترتیب ہونے لگتی ہیں۔ میری بساط ہی کیا میں تو ابھی نو واردانِ شہرِ ادب میں ہوں۔ اسے لئے ابتداء ہی سے اقرار کرتی چلوں میں اپنی مبتدیانہ نظر کی رسائی کے مطابق تاثرات تک محدود ہوں۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم پیدائش کے بعد ۱۱؍ برس تک ایران میں مقیم رہے ۔ اس لئے ان کو فارسی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور حاصل تھا جبکہ اردو انگریزی، عربی ،پنجابی، کشمیری اور ہندی انھوں نے ہندوستان آکر سیکھیں۔ چونکہ فارسی آپ کی مادری زبان تھی اس لئے کلیات میں اردو غزلیات کے ساتھ فارسی کلام بھی نمایاں ہے۔ ساتھ ہی عقل کو حیران کردینے والی آپ کو کاوش ’’خیام بنام خیامِ نو‘‘ میں عمر خیام کی رباعیوں کا منظوم اردوترجمہ پڑھا۔ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم نے اپنی جدت طرازی اور فنّی مہارت سے عمر خیام کی شعری دنیا میں نئی جان ڈال دی ہے۔علاوہ ازیں آپ کی کاوشوں میں تزکِ جہانگیری و دیگر مشاہیر کی تخلیقات کے ترجمے بھی شامل ہیں جن میں شیکسپئر کے ڈرامے ہیملیٹ کے ایکٹ ۳ منظر ۴، رابرٹ فروسٹ ، ایملی دکنسن، ڈبلو۔ایم ۔ اوڈن، ماؤزے تنگ وغیرہم نظموں و مختلف زبانوں کے گیتوں کے منظوم تراجم شامل ہیں۔
ان کی یہ ہنگامہ زندگی کی آخری سانس تک جاری رہیں۔وہ جہاں اقتدار کے قلعہ کی فصیلوں پر کمند ڈالتے رہے وہیں اپنے محبوب کو لبھانے کے لیے تمام تر مروجہ اور غیر مروجہ ترکیبیں بھی آزماتے رہے۔ ساتھ ہی انقلاب کی لا طبقاتی نظام کی باتیں بھی کرتے رہے جس کا نتیجہ صدر ایوب کے آمرانہ دورِ حکومت کے خلاف معرکۃ الاراء نظم کی اشاعت کی صورت میں موجود ہے۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کا اپنے نظریات و افکار، مغربی تہذیب اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف قلمی جہاد ابھی جاری تھا کہ انھوں نے ناقابلِ فراموش آخری تحریر اپنے قدردانوں کے حوالے کر دی۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم رقم طراز ہیں ’’اگر بعض طنز نگاروں کا یہ کہنا حقیقت پر مبنی ہے کہ بہترین طنز آنسوؤں کے سرچشمے سے ابھرتا ہے تو کہنا بھی غلط نہیں کہ مسرت و سرخوشی کی تندو تیز لہریں غم کے سمندر سے ہی اٹھتی ہیں اور انسان کوشش سے غم کو خوشی میں بدل سکتا ہے۔ میں نے اپنی اسی بات کو سچ کرنے کے لیے عمر خیام کا یہ منظوم ترجمہ کیا ہے اوریہ ترجمہ اگر میری زندگی شاہدوشراب اور مطرب و ساقی سے کوسوں دور ہے۔‘‘ اور پھر اسی کشمکش کے دوران ڈاکٹر سلیم واحد سلیم ایک دن اپنے چاہنے والوں کو اپنی پرماجرا یادوں کے انبوہ میں چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔
انکی اس خواہش کی تکمیل کا سہرا ان کے صاحبزادہ مسلم سلیم کے سر جاتا ہے کہ چراغ سے چراغ جلنے کی روایت ادب کی ابتدائے آفرینش سے چلی آ رہی ہے۔ ڈاکٹر سلیم واحد سلیم نے عمر خیام کی رباعیات کو اپنی فکری صلاحیت سے نئی تاثیر بخشی ہے جس کی بناء پر عمر خیام کی نہ سمجھ میں آنے والی شاعری کو نئی زندگی مل گئی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
عمر خیام
نیکی و بدی کہ در نہادِ بشر است
شادی و غمی کہ در قضا وقدر است
با چرغ مکن حوالہ کاندر رہِ عقل
چرغ از تو ہزار بار بیچارہ تر است
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم
نیکی و بدی ہستی کے دو رخ، آئینۂ دل کے اندر ہیں
آئینِ قضا و قدر یہاں کب سعیِ بشر سے باہر ہیں
یہ نکتہِ عقل وصداقت ہے انسان کے بس میں فطرت ہے
تقدیروقضا، تسلیم ورضا، عیاروں کے اپنے چکر ہیں
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کا یقیناًیہ تخلیقی کارنامہ ہے۔قاری چاہے کسی بھی درجہ کا ہو اس کے لیے اس منظوم ترجمے کے سحر سے بچنا مشکل ہے۔ اسی طرح اگر میں ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کی اردو غزلیات پر روشنی ڈالوں تو انکی شاعری نوجوان نسل کے لیے بے پناہ کشش رکھتی ہے۔
ہمارے لہجے میں گو تلخئِ حیات بھی تھی
مگر نظر میں محبت کی کائنات بھی تھی
حجابِ قربت و دوری اٹھے ہوئے سے تھے
تمھارے ہجر کی راتوں میں ایسی رات بھی تھی
سلگ سلگ کے ترے غم میں جل رہا ہوں میں
فنا کے سانچے میں چپ چاپ ڈھل رہا ہوں میں
کسے یہ ہوش کہ منزل کب آئے گی لیکن
ترے خیال میں گم ہو کے چل رہا ہوں میں
اسلوب کی جمالیات ، صوتی اور معنوی حسن کی حامل نئی دلکش تراکیب اور خیال کی مناسبت سے بحور کا انتخاب ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کی شخصیت میں جمال پر مبنی ملتی ہے ان کی غزل بھی اس کا آئین قرار پاتی ہے۔
رخ سے کسی نے پردۂِ حائل ہٹا دیا
اب جز نگاہِ شوق کوئی درمیاں نہیں
مصروف سجدہ ہائے مسلسل ہے کیوں سلیم
یہ جلوہ گاہِ حشر ہے کوئے بتاں نہیں
فریبِ پیہم غرورِ محکم شرستِ سرمایہ دار میں ہے
علاج اس شیطنت کا محنت کشوں کے بھرپور وار میں ہے
یہ آسماں بوس قصر جن میں چراغ جلتے ہیں معصیت کے
مٹا کے رکھ دو انھیں کہ مدت سے وقت اس انتظار میں ہے
اردو، فارسی اور عربی ادب اور لسانیات کے عمیق مطالعے نے ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کو یہ اعجاز بھی عطا ء کیا ہے کہ ان کی تراشیدہ تراکیب بھرپور مفہوم اور تاثیر کے ساتھ قاری کو منتقل ہوتی ہیں۔جب وہ محبوبہ کو رام کرنے کے لیے قلم اٹھاتے ہیں تو ان کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ موم کی طرح پگھلتے محسوس ہوتے ہیں اور جب وہ ایک باغی کے قالب میں نمودار ہوتے ہیں تو شیخ و برہمن اور ان کے اتحادی اہل حکم کے سروں پر ان کے اشعار گرز بن کر برستے ہیں اور اتنے خوبصورت انداز میں کہ ہر رنگ اورکیفیت میں جمالیاتی عنصر ان کے اشعار میں امڈتا محسوس ہوتا ہے۔
خود فراموشی کی لے میں جب بھی ڈھل جاتا ہے دل
جانے کس جادو سے عکسِ یار بن جاتا ہے دل
کون بتلائے کہاں ہے اب حدِ وصل و فراق
دھڑکنوں میں تیری ہی آواز بن جاتا ہے دل
ابھی نو خیز کلیوں کی طرف نظریں اٹھائی تھیں
ادھر اک گل ادھرکوئی شگوفہ شاخ سے ٹوٹا
سراپا جو لطافت تھی، جو رنگت تھی، جو نکہت تھی
مقدر اپنا کتنی نرم و نازک چیز سےُ پھوٹا
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کے کلام میں ایک ہی رنگ کے اشعار کی کثرت ملتی ہے۔ ان کے الفاظ ایک شوخ ادا کے ساتھ موم کی طرح لوچ دے کر ایک دلکش رنگ اور آہنگ پیدا کرنے میں بھی اپنی مثال آپہیں۔ ان کے اشعار میں غمِ دوراں دھڑکتا ہوا ملتا ہے تو کبھی عاشقی میں اپی خودی کو برقرار رکھنے کا منفرد اظہار۔۔!
جنوں کی دھن میں ہر پتھر کو ہم نے سنگِ در جانا
کوئی بھی رہگزر ہو ہم نے تیری رہگزر جانا
سلیم اک عمر گذری ہے بیانِ آرزو کرتے
یہ قصہ کتنا طولانی تھا لیکن مختصر جانا
دل ہو نہ سکا مائل رنگینئ دنیا
یہ طائرِ ہشیار تہہِ دام نہ آیا
جب بزم میں گردش میں ہوئے جام و صراحی
پھر تذکرۂِ گردشِ ایام نہ آیا
حرم و دیر کا پابند نہیں اپنا دل
تیرے جلوے نظر آتے ہیں جدھر جاتا ہے
لطفِ ہستی وہی دنیا میں اٹھاتا ہے سلیم
جو خطرگہ میں بھی بے خوف و خطر جاتا ہے
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم ایک زندہ دل شاعر تھے۔ ان کے استعارے موجودہ دور کے تناظر میں بھی با معنی معلوم ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سرنگ کتنی تاریک اور طویل کیوں نہ ہو مگر اس کے اختتام پر روشنی کا دائر ہ استقبال کرتا ہے۔
ڈاکٹر سلیم واحد سلیم ایک ادبی گھرانے سے جس قلمی سفر پر نکلے تھے وہ قدم قدم پر وقت کی مصلحت پسندی کا سامنا کرتا ہوا حق کی خاطر لڑتا ہوآج پوری دنیا کا سفر طے کر چکا ہے۔آج ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کا نام ادبی افق پر چمکتے دمکتے چاند کی مانند ہے۔
ان کی جنوں خیز قلمی کاوشوں کی دھن پر میں جس طرح سر دھنتی رہی اور والہانہ رقص کرتی سوچوں کے ساتھ صفحات در صٖفحات آگے بڑھتی رہی تو مجھے اب یہ خیال شدت سے ستا رہا ہے کہ یقیناًوہ ابھی ادب کے میدان میں ان گنت مسائل سلجھانے کی کوششوں میں محو تھے کہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مجھے انکے احساسات ان کے فرزند مسلم سلیم کی شخصیت میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ یقیناًآج مسلم سلیم اپنے والد گرامی کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے موجودہ عہد کے ترجمان ہیں۔ میری نیک تمنائیں ہمیشہ انکے ساتھ ہیں۔
ارم زہرا
۱۲ مئی ۲۰۱۴
کراچی، پاکستان
Indian Muslim Legends - Muslim Saleem
http://indianmuslimlegends.blogspot.in/2013/09/436-muslim-saleem.html?showComment=1398220241297#c9193788099551253559
Sunday, 13 April 2014
Wednesday, 9 April 2014
Thursday, 6 February 2014
Muslim Saleem – ghazal – adaz hain haan kehne ke….
Andaaz hain haan kehne ke aakhir to sabhi naa
Main haan hi samajhta hoon jo kehta kabhi naa
Ai zeest miri tu isi ummeed pay jeena
Utray ga haqeeqat main kabhi khwaab ka zeena
Sairaab ho ye rooh to pur noor ho seena
Ho meharbaan ham par bhi mahabbat ki haseena
Har dam ho khayaal uska mujhe roz-o-shabeena
Har maah ho us maah ki ulfat ka maheena
Muslim tiray maddah hain naa-beena-o-beena
Khoob aata hai izhaar ka tujhko bhi qareena
Ai zeest miri tu isi ummeed pay jeena
Utray ga haqeeqat main kabhi khwaab ka zeena
Sairaab ho ye rooh to pur noor ho seena
Ho meharbaan ham par bhi mahabbat ki haseena
Har dam ho khayaal uska mujhe roz-o-shabeena
Har maah ho us maah ki ulfat ka maheena
Muslim tiray maddah hain naa-beena-o-beena
Khoob aata hai izhaar ka tujhko bhi qareena
Monday, 27 January 2014
TRIBUTES TO MUSLIM SALEEM BY ZAHINA SIDDIQUI
BY ZAHINA SIDDIQUI, ALL-INDIA RADIO,
URDU MAJLIS, NEW DELHI
HUMDAM HO HUM KHAYAL HO MUSLIM SALEEM TUM , ,,,,,,,
ULFAT KI EK MISAAL HO MUSLIM SALEEM TUM .
JISKA NAHIN JAHANE ADAB MAIN KOI JAWAB , ,,,,,,
AISA HI EK SAWAL HO MUSLIM SALEEM TUM .
TUM SACHCHE QADERDAAN HO URDU ZABAAN KE , ,,,,,,,,,
INSAAN BA KAMAAL HO MUSLIM SALEEM TUM .
ARBAABE ILMO FUN KI NIGAHON MAIN AAJKAL , ,,,,,,,,,
EK HUSN HO JAMAAL HO MUSLIM SALEEM TUM .
KHILTE HAIN JISPE GHUNCHE WAFAON KE PYAR KE , ,,,,,,
PHOOLON KI AISI DAAL HO MUSLIM SALEEM TUM .
BUJHTE HUYE CHIRAAGH JALANE KE WASTE , ,,,,,,,,,
IK NOOR-E-LAA ZAWAAL MUSLIM SALEEM TUM .
AB TO KARO YAQEEN ZAHINA KI BAAT PAR , ,,,,,,,,,
SHAIR KA EK KHAYAL HO MUSLIM SALEEM TUM .
Monday, 13 January 2014
NAZRANA-E-AQEEDAT BARAI MUSLIM SALEEM SB: AUWWAL SANGRAMPURI
NAZRANA-E-AQEEDAT BARAI MUSLIM SALEEM SB
AUWWAL SANGRAMPURI
JEDDA, SAUDI ARABAI
HUSN-E-SUKHAN MAIN JO YE TIRAY INSIJAAM HAI
SHAHID HAI, KOI BHI NA TIRAA HAM-MAQAAM HAI
SAARE FUSOON-NIGAAR YE KARTE HAIN AITIRAAF
AB REEKHTE KA TOO HI JAHAAN MAIN IMAAM HAI
BARQ-E-SUKHAN HAI TERI ZIYAA-BAAR HAR TARAF
DAANISH MAIN TERI MEHR-E-SUKHAN TEZ-GAAM HAI
AHL-E-ADAB NAY TUJHKO WO MANSAB ATAA KIYA
SHE’RAA KO JO NUJOOM MAIN HAASIL MAQAAM HAI
TERAY SUKHAN KI FIKR SAY HAM PAR AYAAN HAI YEH
BAAM-E-FALAK KO CHOOMTA TERAA KALAAM HAI
MUSLIM SALEEM SAHIB-E-QALB-E-SALEEM HAIN
UNKA RUKH-E-HASEEN BHI MAAH-E-TAMAAM HAI
MERI DUA HAI HAR KOI HO US SAY MUSTAFEED
URDU ZABAAN PAY AAP KA JO FAIZ-E-AAM HAI
TERAY MURASHSHAHAAT-E-QALAM HAMARA DIL
DAST-E-NAZAR SAY CHOOM KAY KARTA SALAAM HAI
*******************************************
SHE’RAA= NORTH STAR
About these ads
Friday, 10 January 2014
GRAND FELICITATION TO DR SHAHZAD RIZVI AT BHOPAL Part 1
ڈاکٹر شہزاد رضوی اور امریکہ میں اردو ادب کی قدآور شخصیت :مسلم سلیم
بھوپال کے فر زند کو پروفیسر آفاق احمد کا بھی خراج: شاندار استقبالیہ منعقد
بھوپال: ۲۹؍ دسمبر ۲۰۱۳واشنگٹن میں مقیم مدھیہ پردیش اور
بھوپال کے عظیم فرزند مشہور شاعر اور ناول نگار ڈاکٹر شہزاد رضوی کو ہم سخن
ویلفئر سوسائٹی و کھوج خبر نیوز ڈاٹ کام کی جانب سے شاندار استقبالیہ دیا
گیا۔ اس موقعہ پرجناب مسلم سلیم نے ڈاکٹر رضوی کو امریکہ میں اردو ادب کی
قدآور شخصیت سے تعبیر کیا۔ مہمانِ خصوصی پروفسر آفاق احمد نے بھی ڈاکٹر
رضوی کی ادبی خدمات کو سراہا۔ اس سے قبل مسلم سلیم اور پروفسر آفاق احمد نے
ڈاکٹر شہزاد رضوی کو ’’فخر بھوپال ‘‘ ٹرافی پیش کی۔ ہم سخن کے سکریٹری
جناب عبدالاحد فرحان نے ڈاکٹر رضوی کو منظوم سپاس نامہ پیش کیا دہلی کے
مشہور شاعر ڈاکٹر احمد علی برقی ؔ اعظمی نے تحریر کیا تھا۔ ڈاکٹر رضوی کی
اہلیہ محترمہ رابعہ رضوی اور دختر ممتاز رضوی بھی اسٹیج پر موجود تھیں۔
پروگرام کا آغاز گلوکار جناب یعقوب ملک نے مسلم سلیم کی تحریر کردہ نعت سے
کیا۔جناب مسلم سلیم نے کہا کہ فی زمانہ ایک خانوادہ امریکہ میں اردو ادب کی سب سے زیادہ خدمت انجام دے رہا ہے جسمیں ڈاکٹر شہزاد رضوی ، انکی ہمشیرہ ڈاکٹر عمرانہ نشتر خیرآبادی ، ناہید نشترخیرآبادی اورر خسانہ وسیم اور برادرِ خورد سید ضیا خیرآبادی شامل ہیں۔ان کے والد یادگار حسین نشتر خیرابادی، والدہ محترمہ سیدہ سرفراز فاطمہ نشتر اور ہمشیرہ سیدہ سہیلہ خیرآبادی بھی اچھے سخنور تھے۔ڈاکٹر شہزاد رضوی ۱۹۶۴ء میں عالم شباب میں امریکہ چلے گئے۔ وہاں انہوں نے مختلف یونیورسٹیوں میں ا علیٰ تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے پروفیسر ہوگئے۔ اب وہ امریکی شہریت حاصل کرکے واشنگٹن میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ عرصہ سے مقیم ہیں۔
جناب مسلم سلیم نے بتایا کہ اردو کے علاوہ ڈاکٹر رضوی انگریزی میں بھی شاعری کرتے ہیں۔ آپ نے انگریزی میں کہانیاں اور ناول لکھنے میں بھی کافی شہرت حاصل کی ہے اور ان کے ناول Kahany.orgپر دیکھے جاسکتے ہیں یا amazom.comسے دستیاب ہوسکتے ہیں۔جناب مسلم سلیم نے اپنے مقالے میں امریکہ میں اردو ادب اور تدریس پر بھی سیر حاصل روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر شہزاد رضوی کی حیات و کمالات پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر آفاق احمد نے بتایا کہ ڈاکٹر رضوی نے دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ۔ انہوں نے موسم گرما کے دوران آکسفورڈ، سوربون(فرانس) اور لندن میں جاکر کورس کئے اور اسی دوران پورے یوروپ کا سفر بھی کیا۔صدر ریگن کے دوران حکومت ڈاکٹر رضوی نے ایوان صدر میں مترجم کی خدمات انجام دیں اور مسز ریگن کے ساتھ بحیثیت مترجم ان کے ہوائی جہاز میں میں سفر کرنے کا موقع بھی ملا، اس دوران میں امریکہ کی مشہور شخصیتوں، جیسے کہ ہنرسی کسنجر، افسران اور اداکار ان سے ملاقات ہوئی۔
پروفیسر آفاق احمد نے بتایا کہ ڈاکٹر شہزاد رضوی وہ اپنی شاعری میں روایتی موضوعات، واعظ، ساقی اور محبوب کی جفاکاری پر نہیں لکھتے۔ ان کی شاعری کے موضوع زندگی اور عالمی مسائل ہوتے ہیں جن سے آج انسان دوچار ہے۔ وہ اپنی شاعری سے مذہبی تفریق اور تعصب ، نسلی امتیاز اور قبائلی اور قومی رسہ کشی اور تصادم کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ بڑی آرزو ہے کہ دہشت گردی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے اور دنیا کے لوگوں میں ہم آہنگی اور بھائی چارہ پیدا ہوجائے۔ ڈاکٹر شہزاد رضوی صاحب اب تک ۱۲؍ ناول انگریزی میں تحریر کر چکے ہیں جنکے عنوان یہ ہیں۔.ان میں سے دو ناولوں ’’د ا لاسٹ ریسیڈینٹ ‘‘ اور ’’بہائنڈ د ا ویل‘‘ بھوپال کے پس منظر میں تحریر کئے گئے ہیں۔لیکن یہ مکمل طور سے فکتشنل ہیں اور انکابھوپال کے نوابی خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اپنے خطاب میں ڈاکٹر شہزاد رضوی نے اراکینِ ہم سخن ویلفئر سوسائٹی و کھوج خبر نیوز ڈاٹ کام کا شکریہ ادا کیا۔ڈاکٹر رضوی نے بتایا کہ ان کی پیدائش۲۸فروری ۱۹۳۷ء لشکر گوالیار میں ہوئی جہاں ان کے دادا خان بہادر حضرت مضطر خیرآبادی ایک زمانے میں جج تھے۔ مضطر خیرآبادی علامہ فضل حق خیرآبادی کے نواسے تھے ۔آپ کے خاندان کا ہندوستان کی جنگِ آازدی میں بھی اہم حصہ رہا ہے۔ آپ کے پرنانا حضرت فضلِ حق خیرابادی نے انگریزوں کے خلاف زبردست مہم چلائی تھی جسکی پاداش میں انھیں کالے پانی کی سزا دی گئی تھی اور وہیں انڈومان میں آپ کا انتقال ہو ا تھا۔ڈاکٹر رضوی کی والدہ محترمہ سیدہ سرفراز فاطمہ نشتر کا تعلق بھوپال کے ایک جاگیردار خاندان سے ہے۔ ڈاکٹر رضوی نے حمیدیہ کالج بھوپال سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ سیفیہ کالج میں لیکچرر رہے۔ اس کے بعد ایک اور ایم اے کی ڈگری انگریزی ادب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی اور پھر امریکہ چلے گئے۔
اس موقعہ پر ڈاکٹر شہزاد رضوی صاحب نے اپنی متعدد نثری نظموں سے بھی سامعین کو نوازا۔ ڈاکٹر رضوی نے مسلم سلیم کو اردو کے ایک بڑے شاعر اور ادیب سے تعبیر کیا۔ انھوں نے کہا کہ جناب مسلم سلیم انٹرنیٹ کے ذریعے بھی اردو کی بیش بہا خدمت انجام دے رہے ہیں۔
اس دوران رائسین سے تشریف لائے جناب حاجی میاں نے ڈ ایک بیش قیمت قلم اور پروفیسر مجید خاں و ڈاکٹر اعظم نے اپنی کتابیں اکٹر شہزاد رضوی کو پیش کیں۔
شروعات میں کھوج خبر نیوز ڈاٹ کا م کے ایڈیٹر جناب عطاء ا ﷲ فیضان ، ہم سخن کے صدر جناب شارق علی ، جناب بسید فیضان علی، ڈاکٹر انیس سلطانہ ، محترمہ رشدہ جمیل اور جناب مظفر اقبال صدیقی نے مہمانان کی گلپوشی کی اور ہم سخن کے سکریٹری جناب عبدالاحد فرحان نے ڈاکٹر شہزاد رضوی کو منظوم سپاسنامہ پیش کیا۔ جناب سلیم قریشی صاحب سے کہ اظہار خیال فرمایا۔
تقریب کی نظامت خوش فکر شاعر اور ادیب ڈاکٹر اعظم نے فرمائی۔ آپ ہی نے اظہار تشکر بھی کیا۔
Thursday, 9 January 2014
Gumgashta alfaz-1
Urdu bahut wasee zabaan hai. Yeh hamaari ghalati hai ke ham
iske bahut say alfaaz ko bhoolte jaa rahe rahe hain. Main kucch aise alfaz say aapko
rooshanaas karaana chahta hoon. Shayad kisi kaam aaye.
Nafri
Aaj ham ko lagta hai ke English alfaz personnel aur manpower
ke liye Urdu main koi lafz naheen hai to jaan len ke Urdu main lafz Nafri (jo
Nafar=Fard se musthaq hai) sadiyon say mustamal hai. Is lafz ka istemal fauj
aur police main bataur-e-khaas kiya jaata raha hai. Lekin ab log is say kam hi
waaqif hain. (Muslim Saleem)
Monday, 6 January 2014
Monday, 9 December 2013
MUSLIM SALEEM - AFSAANA - NANGI SADAK PAR - AWARDED IN AMU
MY AFSAANA - NANGI SADAK PAR WAS AWARDED IN A COMPETITION AT AMU IN 1972. THE PRIZE WAS GIVEN AWAY BY ASMAT CHUGHTAI.
Sunday, 8 December 2013
www.urduaajkal.com par shaya shuda Muslim Saleem par mukhtalif mazaameen ke url
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=85
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=86
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=87
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=88
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=89
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=90
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=91
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=92
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=93
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=94
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=86
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=87
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=88
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=89
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=90
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=91
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=92
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=93
http://www.urduaajkal.com/DContent.aspx?aid=94
Monday, 2 December 2013
Saturday, 30 November 2013
NAZRANA-E-AQEEDAT BARAI MUSLIM SALEEM SAHIB - SHAIR: TARIQUE MOHIUDDIN, PATNA, BIHAR, INDIA
KAARWAN-E-ADAB
PAASBAN-E-ADAB
DASTAN-E-ADAB
TU NISHAN-E-DAB
SHAIR-E-NEK NAAM
TUJHKO LAKHON SALAAM
TERI
TAHREER KYA
TERI TAQREER KYA
TERI TAFSEER KYA
TERI TADBEER KYA
EK
KAUSAR KA JAAM
SHAIR-E-NEK NAAM
TU
NAY RAKKHI HAI LAAJ
SAR
PE URDU KE TAAJ
MUHTARAM TU HAI AAJ
PESH
HAI YE KHIRAAJ
TERA UNCHA MAQAAM
SHAIR-E-NEK NAAM
SHAM’A BUJHTI RAHI
URDU LUTATI RAHI
JIS NE AAWAZ DI
WO TERI ZAAT THI
TU
MUJAHID MUDAAM
SHAIR-E-NEK NAAM
MEER-E-SAANI HAI TU
ROOD-E-MAANI HAI TU
JAWIDAANI HAI TU
EK KAHANI HAI TU
TU GHAZAL KA IMAAM
SHAIR-E-NEK NAAM
BA
AQEEDAT JABEEN,
YOUN HI JHUKTI NAHEEN.
HAI
YEH DIL KO YAQEEN
AI MERE HUM NASHEEN
KUCHH
HAI RAAZ-E- DAWAAM,
SHAIR-E- NEK NAAM.
Sunday, 24 November 2013
Friday, 15 November 2013
Thursday, 7 November 2013
Article based on Muslim Saleem’s she’r by Zulqarnain Gillani
MUSLIM SALEEM KE SHE’R PAR SUDAIF GILLANI KA MAZMOON
JANAB ZULQARNAIN (SUDAIF) GILLANI SB
KOHNA MASHQ COLUMN NAWEES AUR SHAIR HAIN. AAP NAY MERA EK SHER “BACHCHON
KO HONAY DEEJIYE EHSAAS DHOOP KA…….NASHVO NUMAA NA ROKIYE, SAAYA NA
KEEJIYE KI BUNIYAD PAR SER HAASIL MAZMOON TAHREER KIYA HAI JO ROZNAMA
SUBH-E-WATAN MAIN SHAYA HUA HAI. SUDAIF SB KA SHUKRIYA ADAA KARTE HUE
MAZMOON AAP KI KHIDMAT MAIN PESH HAI.
Wednesday, 6 November 2013
GREAT POET DR. AHMAD ALI BARQI AZMI PAYS TRIBUES TO MUSLIM SALEEM’S PARENTS
Ye aks
waalidain ke Muslim Saleem Ke
Duniyaa-e-rang-o-boo
main hain ek unki yadgaar
Thay waalid
unke ek adeeb-e-sukhan shanaas
Muslim
Saleem jinke hain farzand-e-honahaar
Umme Habiba
waalida unki theen paakbaaz
Farzand
jinke aaj jahaan main hain naamdaar
Hain apnay
khandaaN ki wiraasat ke wo amen
Wird-e-zabaaN
hain aaj sabhi jinke shahkaar
Waalid thay
unke Farsi-daani main baa-kamaal
“Khayyam-e-Nau”
say jinka tabhhur hai ashkaar
- Khayyam-e-Nau” ka Muslim Saleem sb ke waalid nay Dr. Saleem Wahid Saleem sb nay Urdu main manzoom tarjuma kiya hai jise Saanjh publications Lahore nay shaya kiya hai.
ACKNOWLEDGEMENT (picture of Muslim Saleem, Dr. Saleem
Wahid Saleem sb and BegumUmmeHhabiba
sahiba has been designed by noted poet and graphic artiste janab Mohd.
Aleemullah Khan Waqaar sb.
NIKHARTI JAAYE HAI URDU,,,,,,,,, DUA -E- MUSLIM SAY,, GHAZAB HI DHAAYE HAI URDU,,,,,, DUA-E- MUSLIM SAY,, JAMAAYA DERAA HAI JAB SAY DAYAAR-E-MUSLIM MEIN,, SA’NWARTI JAAYE HAI URDU,,,,,, DUA -E- MUSLIM SAY,, KAHEEN NA THEHRE HAI AB RAAH MAIN TARAQQI KI NA LADKHADAAYE HAI URDU,,,,, DUA -E- MUSLIM SAY,, ZABAAN KI CHAASHNI,,,, ZEENAT BLOGON PAR DEKHEN,, CHAMAK DIKHAAYE HAI URDU,,,,, DUA -E- MUSLIM SAY,, HAR EK MAZHAB-O-FIRQE KE IS GULISTAAN MAIN NIKHAAR PAAYE HAI URDU,,,,,,,,, DUA -E- MUSLIM SAY,, HAI TEZ BAAD-E-MUKHAALIF BAHUT MAGAR AHMED* QADAM JAMAAYE HAI URDU,,,,,,,, DUA -E- MUSLIM SAY,
Monday, 4 November 2013
Monday, 28 October 2013
Tarique Mohiuddin tribute to Muslim Saleem
TARIQUE MOHIUDDIN’S TRIBUTE TO MUSLIM SALEEM
YEH WAQT, YEH ZAMANA HAI MUSLIN SALEEM KA,
AB HAR TARAF FASAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
KHANJAR KI NOK PER BHI YEH KAHTE HAIN HAQ KI BAAT,
HAR SHER QAATILAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
SAUDA, ZAFAR KE, ZAUQ KE SAB MU’TARIF HOYE,
HAR SHAKHS AB DEEWAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
QAARI KE DIL MAIN SEEDHI UTARTI HAI UNKI BAAT
WO RANG SHAYERANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
TAKH’EEL UNKI AUJ-E-SURAYYA SE HAI BULAND,
IK RANG AARIFAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
SADQE SALEEM WAHID* O ABDUL HAKEEM* KAY
ILM-O-ADAB GHARAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
TARIQUE KO ISHTIYAAQ-E-MULAQAAT HAI BAHUT
MADDAH GHAIBAANA HAI MUSLIM SALEEM KA.
++++++++++++++
1. Saleem Wahid* = Dr. Saleem Wahid Saleem waalid-e-mohtaram Muslim Saleem sb aur Khayyam-e-nau ke khaliq
2. Abdul Hakim* = Dr. Khalifa Abdul Hakim = Dr. Saleem Wahid Saleem kea mm jinhon nay Fikr-e-Iqbal sameet Urdu main darjanon kitaaben tasneef keen.
NAZR-E-MUSLIM SALEEM SAHEB: AHMAD ALI KHA, RIYAD, SAUDI ARABIA
NAZR-E-MUSLIM SALEEM SAHEB: AHMAD ALI KHA, RIYAD, SAUDI ARABIA
HAR KAS-O-NAA KAS KO KAB MILTA HAI SHUHRAT KAA MAQAAM,,
KHIDMAT-E-URDU SAY PAAYA HAI YEH AZMAT KAA MAQAAM,,
DIL MAIN GHAR KAR LETE HAI, AISA HAI IZZAT KA MAQAAM
IS KAY AAGE KUCHH NAHEEN HAI JAAH-O-HASHMAT KA MAQAAM
RAAJ KARTI HAI DILON PAR GO NAHEEN HAIN TAKHT-O-TAAJ
KAM NAHEEN SHAHI SAY KUCHH BE-LAUS KHIDMAT KA MAQAAM
FIKR-O-FUN INSAAN KE CHHOO SAKTI KAISE AASMAN
SOCHIYE TO FIL HAQEEQAT HAI YEH HAIRAT KA MAQAAM
MERI QISMAT DEKHIYE HAIN RAHNUMA MUSLIM SALEEM
MAIN JAHAAN HOON AAJ AHMED, HAI SAADAT KA MAQAAM
Tuesday, 22 October 2013
NAZRANA-E-AQEEDAT BA-KHIDMAT MOHTARAM MUSLIM SALEEM SB : Tarique Muhiuddin, Patna India
Ik meer-e-kaarwaaN hain, adab ke hainshahsawaar
Baagh-e-sukhan hai jin ke sabab aaj laalazaar
Har soo jahaan mein chalti hai unki higuftugoo
Phailee hi unke kaam ki shohrat bhi chaarsoo.
Posheeda jo adab main hai sab hoga be-naqaab
Aflak pay hua hai namoodaar Aaftaab.
Unke hi dar pe meri jabeeN jhuk rahi haikyooN
Qadmon pay unke jaa ke nazar ruk rahi haikyooN
Urdu zabaaN mein ek dhadakta hua hai dil
Gulhaay-e-rang-o-boo ka haishehkaar-e-mustaqil.
Baagh-e-sukhan hai jin ke sabab aaj laalazaar
Har soo jahaan mein chalti hai unki higuftugoo
Phailee hi unke kaam ki shohrat bhi chaarsoo.
Posheeda jo adab main hai sab hoga be-naqaab
Aflak pay hua hai namoodaar Aaftaab.
Unke hi dar pe meri jabeeN jhuk rahi haikyooN
Qadmon pay unke jaa ke nazar ruk rahi haikyooN
Urdu zabaaN mein ek dhadakta hua hai dil
Gulhaay-e-rang-o-boo ka haishehkaar-e-mustaqil.
Thursday, 17 October 2013
Tuesday, 15 October 2013
Saturday, 12 October 2013
SULMAN SADDIQUE’S TRIBUTE TO MUSLIM SALEEM
Sulman Saddique is an upcoming Urdu poet from Sialkot, Pakistan.
He posted a qata on his facebook timeline recently. I came to know about it
through another friend Anjum Bashrich sb several days later. Here is the qata:-
KHIDMAT-E-URDU HAI RAAH-E-MUSTAQEEM
ILM KA DARYA HAIN, LEHJA BHI HALEEM
SHAIRI AUR ZAAT DONON HAIN AZEEM
MOHTARAM WO DOST HAIN MUSLIM SALEEM
Friday, 11 October 2013
Muslim Saleem ki ghazal "qamat-o-qad" par sheri wa nasri tabsire
Muslim Saleem - ghazal
دریا ہے رواں خوں کا مرے قامت و قد میں
لے جانا لہو جب بھی کمی پاؤ رسد میں
کمرے میں ہوس کو تو چھپا سکتے ہو لیکن
یہ عشق ہے اور عشق ٹھہرتا نہیں حد میں
اک وہ ہی نہیں شہر میں مجرم تو بہت تھے
بس یہ ہے کہ وہ آگیا الزام کی زد میں
کیا اس نے چھپا رکھا ہے ہمدردی کے پیچھے
بو گل کی تو ہرگز نہیں گل پوش مدد میں
سرخی سے دمکنے لگا اشعار کا چہرہ
کچھ خون کیا صرف جو اظہار کی مد میں
تخلیق تو خود اپنی سند ہوتی ہے مسلم
نادان ہیں وہ لوگ جو الجھے ہیں سند میں
************
**************************************************
Facebook
comments
**************************************************************
·
مسلم ہے
بڑا پہلے ہی سے قامت و قد میں ۔ ۔ ۔ ۔
اب اور
کیا ٹھہرائوں اسے منصب و حد میں ۔ ۔ ۔
۔میں بزم
سخن میں اسے تسلیم کروں گا۔ ۔ ۔۔ ۔
آجائوں
بلا سے کسی الزام کی زد میں ۔ ۔ ۔ ۔
Monday, 7 October 2013
Dr. Saleem Wahid Saleem Wahid Saleem sb ki ghazal par manzoom wa mansoor tabsire
- ڈاکٹر سلیم واحد سلیم کی غزل پر اہلِ نظر کے منظوم و منثور تبصرے
جناب مسلم سلیم صاحب ! والدِ محترم کی شاہکار غزل زیرِ نظر ہے ، اس قدر پائے کی اور خوبصورت غزل پر مجھ جیسے طفلِ مکتب کا کچھ کہنا چھٹا منہ اور بڑی بات کے مصداق ہوگا تاہم میں اسے پڑھ کر بہت متاثر ہوا اور جو میرے دلی جزبات و کیفیات تھے انہیں میں فی البیہہ منظوم کر رہا ہوں قبول فرمایئے گا۔ ’’ نذر انہ۶ عقیدت بحضور ڈاکٹر سلیم واحد سلیم مرحوم و مغفور ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سلیم واحد کی شاعری میں کمالِ فن بھی ہے زندگی بھی ۔ ۔ ۔ ۔
نحسین خود تھے، سجی ہوئی ہے حسین رنگوں سے شاعری بھی ۔ ۔ ۔
Sunday, 6 October 2013
Dr Saleem Wahid Saleem - ghazal - Subh-e-shaam-e-alam
صبحِ شامِ الم
ڈاکٹر سلیمؔ واحد سلیم (والدِمحترم مسلمؔ سلیم)
کبھی ہیں گریاں کبھی ہیں خنداں کبھی ہے غم تو کبھی خوشی بھی
ہزار رنگوں میں رنگِ دنیا ہے زندگی کی ہما ہمی بھی
کچھ اس طرح سے گذر رہی ہے کچھ اس طرح سے گذر گئی بھی
کہ ہم نے رو رو کے شام کر دی جو صبحِ شامِ الم ہوئی بھی
وہ آج اس طرح یاد آئے کہ دل کو غم بھی ہے اور خوشی بھی
کرم بھی یاد آرہے ہیں ان کے نظر میں ہے ان کی برہمی بھی
ثبات غم کو نہیں میسر تو عارضی ہے شگفتگی بھی
ہمیشہ باقی نہیں رہیں گے مرا الم بھی تری خوشی بھی
ہیں جتنے خم سب کے سب پلادے شراب خانے میں مأ بہا دے
جب آج پینے پہ آگئے ہیں تو کیوں نہ پی لیں رہی سہی بھی
بچھڑ گئے جب تو یاد آیا بچھڑ ہی جانا تھا ہم کو اک دن
ہم اس طرح سے جدا بھی ہوں گے یہ دل نے سوچا نہ تھا کبھی بھی
وہی ہیں جانِ قرار و تسکیں جنھوں نے صبر و قرار لوٹا
غمِ محبت تری دہائی کہ رہزنی بھی ہے رہبری بھی
حدودِ منزل سے بڑھ گئے ہیں خیال ِ منزل میں بارہا ہم
سلیم ؔ منزل بکف رہی ہے ہماری ہر ایک گمرہی بھی
ڈاکٹر سلیمؔ واحد سلیم (والدِمحترم مسلمؔ سلیم)
کبھی ہیں گریاں کبھی ہیں خنداں کبھی ہے غم تو کبھی خوشی بھی
ہزار رنگوں میں رنگِ دنیا ہے زندگی کی ہما ہمی بھی
کچھ اس طرح سے گذر رہی ہے کچھ اس طرح سے گذر گئی بھی
کہ ہم نے رو رو کے شام کر دی جو صبحِ شامِ الم ہوئی بھی
وہ آج اس طرح یاد آئے کہ دل کو غم بھی ہے اور خوشی بھی
کرم بھی یاد آرہے ہیں ان کے نظر میں ہے ان کی برہمی بھی
ثبات غم کو نہیں میسر تو عارضی ہے شگفتگی بھی
ہمیشہ باقی نہیں رہیں گے مرا الم بھی تری خوشی بھی
ہیں جتنے خم سب کے سب پلادے شراب خانے میں مأ بہا دے
جب آج پینے پہ آگئے ہیں تو کیوں نہ پی لیں رہی سہی بھی
بچھڑ گئے جب تو یاد آیا بچھڑ ہی جانا تھا ہم کو اک دن
ہم اس طرح سے جدا بھی ہوں گے یہ دل نے سوچا نہ تھا کبھی بھی
وہی ہیں جانِ قرار و تسکیں جنھوں نے صبر و قرار لوٹا
غمِ محبت تری دہائی کہ رہزنی بھی ہے رہبری بھی
حدودِ منزل سے بڑھ گئے ہیں خیال ِ منزل میں بارہا ہم
سلیم ؔ منزل بکف رہی ہے ہماری ہر ایک گمرہی بھی
Friday, 4 October 2013
مسلم سلیم - ۲۱ویں صدی کا شاعر Muslim Saleem ----Ikkeesween Sadi ka Shair
مسلم سلیم - ۲۱ویں صدی کا شاعر
از ڈاکٹر شہزاد رضوی۔۔۔۔سابق پروفیسر ، واشنگٹن ، ڈی ۔سی ، یو۔ایس ۔اے
میں ان کی شاعری کے اس جدید لب و لہجہ سے اس قدر متاثر ہواکہ میں نے انٹرنیٹ پر انگریزی میں مسلم سلیم کی شاعری پر نہ صرف سیر حاصل مضامین تحریر کئے بلکہ ان کی کئی غزلوں کا انگریزی ترجمہ ء کل انٹر نیٹ پر پوسٹ کیا۔ میں نے اپنے ۲۴ اپریل، ۲۰۱۱ کے مضمون Muslim Saleem and revelation of his art میں لکھا تھا ’’ اگر بین الاقوامی اردو حلقہ مسلم سلیم کی شاعری کا حظ اٹھانے سے محروم رہ گیا تو یہ ایک از حد شرمناک بات ہوگی۔ مسلم سلیم شاعری برائے شاعری کے قائل نہیں۔ اور تبھی قلم اٹھاتے ہیں جب ان کے سینے میں موجزن جذبات ان کو تحریک دیتے ہیں اور وہ گزشتہ نصف صدی اور موجودہ صدی کے بحرانات و تجربات کو اس تحریک کی کڑی میں خوبصورتی اورچابکدستی سے پروتے چلے جاتے ہیں۔مسلم سلیم کے اشعارکو سرسری طور پر لینے والا خواہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو اس کے عمق سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا۔ زندگی بھر اسٹڈی روم میں بیٹھ کر مطالعہ کرنے والے جو سرد و گرم زمانہ چشیدہ نہ ہوں مسلم سلیم کی شاعری کی depth تک پہنچنے میں ہو سکتا ہے کہ ناکام ہو جائیں لیکن ہم جیسے لوگ جو زبردست جدو جہد کے بعد امریکہ، یوروپ، اور دیگر بیرونی ممالک میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں، مسلم سلیم کے فن اورتجربے کی گہرائی کو مسmiss نہیں کر سکتے۔‘‘
اس سے قبل میں نے ۱۰ اپریل ،۲۰۱۱ کو تحریر کردہ اپنے مضمون Muslim Saleem:An Analysis میں مسلم سلیم کے بارے میں لکھا تھا۔
’’ مسلم سلیم کا تعلق اس نسل سے ہے جو آزادئ ہند کے فوراً بعد وجود میں آئی تھی ۔ تلاشِ ذات اس نسل کا سب سے اہم مسئلہ تھا اور اسکے لئے لمحہۂ فکریہ یہ تھا کہ برق رفتاری سے گزرتی جا رہی ۲۰ویں صدی میں وہ کیا اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہی وہ دور تھا جب مسلم سلیم پہلے علی گڑھ اور پھر الہٰ آباد یونیورسٹی میں اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور ہندی کی اپنی صلاحیتوں کو جلاِ دے رہے تھے۔ تحصیل علم کے دوران ہی مسلم سلیم نے معاشرہ کی انہی نئی لہروں کی اپنی شاعری اور افسانوں کا ایجنڈا بنا لیا تھا۔ گزشتہ ۳۰ برس کو دوران انگریزی، اردو اور ہندی میں صحافت سے ان کے قلم کی کاٹ اور بھی گہری ہو گئی ہے۔‘‘
میں اس مضمون میں مسلم سلیم کے اشعارصرف چند اشعار نقل کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی میرے خیالات سے متفق ہو جائیں گے۔ مسلم سلیم کو استعاروں اور علامتوں پر جو عبور حاصل ہے اس سے ان کی شاعری ازحد تہہ دار ہوگئی ہے۔ ایک ہی شعر سے معنیٰ و مفہوم کے سوتے پھوٹے پڑتے ہیں۔
دھوپ میں دیوار بھی تھی کسکو تھا اسکا خیال۔۔۔۔۔ استفادہ ساےۂِ دیوار سے سب نے کیا
یہ اس شخص کے المیہ اور بے چارگی کا پر اثر بیان ہے جس سے ایک زمانہ مستفید ہوتا ہے لیکن یا تو اس ایثار سے بے خبر ہے یا دیدہ ؤ دانستہ اس کی داد نہیں دیتا کہ اس نے لوگوں کو آلام و مصائب سے محفوظ رکھنے کے لئے آفات و کرب کا کس قدر سامنا کیا ہے اور وہ بھی کوئی شکوہ زبان پر لائے بغیر۔احسان ناشناسی اور بے قدری ہمارے دور کا ایک بڑا المیہ ہے اور غزل کے دو مصرعوں میں اسے اتنی چابکدستی اور فنّی مہارت کے ساتھ نظم کرنے پر مسلم سلیم بے شک داد کے مستحق ہیں۔
بچوں کو ہونے دیجئے احساس دھوپ کا
نشو و نما نہ کیجئے، سایہ نہ کیجئے
ایک بار پھر دھوپ اور سایہ کی علامتیں ایک بہترین شعر کی تخلیق میں ممد ہوئی ہیں۔ جدوجہد اور تجربات و حوادث زندگی میں آگے بڑھتے رہنے اور اسے سنوارنے کے لئے از حد ضروری ہیں۔ ضرورت سے زیادہ پدری یا مادری شفقت میں پلنے والے بچے زندگی میں ذہنی و شخصی ارتقاء کی کئی منازل طے کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس لئے تجربے ان کے لئے تریاق اور سایہ سنگِ راہ ہے۔ یہ مضمون غزل کے پیرائے میں مسلم سلیم سے پہلے کسی نے نہیں باندھا ہے۔
تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گے۔۔۔۔۔ میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی
اس شعر میں دھوپ کا لفظ تو نہیں لیکن اس کا شدید احساس موجود ہے۔ سایہ اور دیوار مل کر پھر جادو جگاتے ہیں اور ایک المیہ اے حسین پیرائے میں بیان ہو جاتا ہے۔ شاعر ایک ایسے شخص کی کیفےئات کو بیان کرتا ہے جو مسلسل طور پر اخوت، شفقت، دوستی اور کرم سے محروم ہے۔ یہ احساسِ محرومی تب اور بھی بڑھ جاتا ہے جب وہ کسی ایسے شخص کی طرف بڑھنے کی سعی کرتا ہے جس میں یہ اوصاف پائے جاتے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس شخص سے کچھ استفادہ کر سکے وہ شخص کوچ کر جاتا ہے اور طالبِ فیض تشنہ کا تشنہ رہ جاتا ہے۔
سائباں ساتھ کس کے چلے ہیں ۔۔۔۔۔پھر وہی دھوپ تھی، قافلہ تھا
قافلۂِ ذات کو تجربات و حوادث کی تیز دھوپ میں چلتے ہی رہنا پڑتا ہے کیونکہ محافظت اور تسکین دینے والے ایک حد تک ہی ساتھ دے سکتے ہیں اور رہگزارِ زیست میں ان سے صرف اسی قدر مستفید ہوا جاسکتا ہے جس طرح راہ میں کوئی سائبان یا کوئی سایہ مل جائے اور انسان کچھ دیر وہاں رک کر آرام کر لے۔ آگے کا سفر تو اسے سائبان سے آگے بڑھکر صعوبتوں اور دشواریوں کو جھیل کر ہی طے کرنا پڑیگا۔
یہ اشعار میں نے مسلم سلیم کے گذشتہ مجموعہ آمد آمد سے لئے تھے۔ اب میں ان کے زیرِ نظر مجموعہ سے منتخب چند تاریخ ساز اشعار کی نشاندہی کر رہا ہوں۔
بہار لائے تھے یہ انکا احترام کرو۔۔۔۔خزاں رسیدہ درختوں کو بھی سلام کرو
پاس ہو کے بھی ہم سے وہ خفا خفا سا ہے ۔۔۔۔۔دوریاں ہیں میلوں کی فاصلہ ذرا سا ہے
رنگ آتے جاتے ہیں کتنے اسکے چہرے پر۔۔۔۔۔حسن اسکا اب دیکھو جب کہ وہ خفا سا ہے
اس لئے جیت کر ہر اک میداں بڑھ گئے رزم گاہ سے آگے۔۔۔۔ہم نے اپنی نگاہ رکھی تھی دشمنوں کی نگاہ سے آگے
پہلے تھا ملک میں بس اک ظالم سب جسے بادشاہ کہتے تھے۔۔۔۔اب تو اپنے ہیں سینکڑوں آقا ظلم میں عالی جاہ سے آگے
کس قدر پانی ہے پہلے اس کا اندازہ کیا۔۔۔۔۔بند پھر اپنی مدد کا اس نے دروازہ کیا
دہکتی ریت پر پھر میں نے دیکھا۔۔۔۔سمندر میری ٹھوکر سے نکلنا
قوم کی زبوں حالی پر بھی مسلمؔ سلیم نے بے حد چابک دستی سے روشنی ڈالی ہے:۔
یاد ہے سارا جہاں بھول گئے ہیں خود کو۔۔۔۔۔سوچتے ہیں کہ کہاں بھول گئے ہیں خود کو
جیت لے گا ہمیں دشمن بڑی آسانی سے۔۔۔۔۔ہو گیا سب پہ عیاں بھول گئے ہیں خود کو
زیرِ نظر مجموعے میں مسلمؔ سلیم نے دہشت گردی کے خلاف کافی موثر اشعار شامل کئے ہیں۔یہاں میں اس موضوع پر انکی ایک مکمل غزال نما نظم نقل کر رہا ہوں:
ہو اگر عاجز تو پھر حاجت روا بنتے ہو کیوں۔۔۔۔کام ہے یہ تو خدا کا تم خدا بنتے ہو کیوں
درسِ رحمت بھول کر کیوں بن گئے بیدادگر۔۔۔۔۔سب کے حق میں پیکرِ جوروجفا بنتے ہو کیوں
ہر قدم کج فہمیاں ہیں، ہر قدم گمراہیاں۔۔۔۔۔حق شناس و حق نگر اور حق نما بنتے ہو کیوں
ہو اگر مقدور رکھّو ساتھ کوئی راہبر۔۔۔۔۔راہ گم گشتہ عزیزو! رہمنا بنتے ہو کیوں
فرض مسلمؔ پر قیامِ امن ہے یہ جان لو ۔۔۔۔۔۔یوں کھلونا بے جہت جذبات کا بنتے ہو کیوں
اسی موضوع پر چند اور اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ جانے کس جگہ مل جائے دہشت۔۔۔۔دعائیں پڑھ کے سب گھر سے نکلنا
بھرے گا پیکرِ تصویر میںِ خوں ۔۔۔۔۔محبت کا وہ منظر سے نکلنا
بہشت ملتی ہے دہشت سے اور تشدّد سے ۔۔۔۔۔نکال ڈالے دماغوں سے یہ سنک کوئی
اڑا کے اوروں کو خود کو بھی مار لیتے ہیں۔۔۔۔۔وہ سوچتے ہیں کہ اس میں ثواب ہوتا ہے
اے کشت و خون کے داعی ذرا بتا تو سہی ۔۔۔۔۔کہ ان دھماکوں سے کیا انقلاب ہوتا ہے
اس مجموعہ میں رومانی شاعری اور قطعات کی شمولیت بھی معنی خیز ہے کیونکہ پہلے مجموعے میں ان کی تعداد برائے نام تھیْ وہ مجھ کو سمجھنے میں جو ناکام رہا ہے ۔ ۔۔۔ ۔ خود مجھ پہ ہی اس جرم کا الزام رہا ہے
یہ جسم کرتا ہے اکثر بہت سوال تر۱ ۔۔۔ ۔۔ رگوں میں دوڑنے لگتا ہے جب خیال ترا
قدم بچا کے رکھوں میں اگر تو کیسے رکھوں ۔ ۔۔۔ہر ایک سمت تو پھیلا ہوا ہے جال ترا
تب مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے مخمل یاد کا ۔۔ ۔۔۔ سر پہ جب سایہ فگن ہوتا ہے بادل یاد کا
جان و دل میں جب مہک اٹھتا ہے صندل یاد کا۔۔۔۔ سو غموں کو دور کر دیتا ہے اک پل یاد کا
آج صندوق سے دیرینہ زمانے نکلے ۔۔۔۔۔ڈائری کھولی تو یادوں کے خزانے نکلے
ایسے ماضی کی پھواروں میں شرابور ہوئے۔۔۔۔ جیسے بچہ کوئی بارش میں نہانے نکلے
رات بھر چنتے ہیں اکثر لعل و گوہر خواب کے۔۔۔صبحدم روتے ہیں ہم ٹکڑے اٹھا کر خواب کے
خواب کی جانب چلے پیغام لے کر خواب کے۔۔۔۔یوں اڑے دل کی منڈیروں سے کبوتر خواب کے
جان و دل اپنے ہیں صدقے اس منور خواب کے ۔۔۔۔۔جاگتی آنکھوں میں رہنے دو وہ منظر خواب کے
مسلم سلیم نے مغربی ممالک اور میڈیا کی فحاشی اور غلط بیانی کا راز بھی فاش کیا ہے:
مغربی بازاریت کی دین یہ ہیجان ہے۔۔۔۔۔حسنِ نسواں اب فقط تفریح کا سامان ہے
مکر آرائش ہے اسکی،جھوٹ اسکی شان ہے۔۔۔۔۔مت بہک جانا، یہ گورا میڈیا شیطان ہے
خود تو گویا قتل و غارت، ظلم سے انجان ہے۔۔۔۔۔ ہر برائی کے لئے اسلام پر بہتان ہے
اُس کی ہرزہ گوئیوں پر مہرِ استحسان ہے ۔۔۔۔۔۔ ہم نے گر کچھ کہہ دیا تو ہر طرف طوفان ہے
حق پہ جینا ، حق پہ مر مٹنا ہی اسکی شان ہے۔۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے دہر میں مسلم ہی بس انسان ہے
مسلم سلیم کا تقریباً ہر شعر ایسی ہی تہہ داریوں سے مملو ہے اس کے لئے ایک علیحدہ کتاب درکار ہے اور اس مضمون کی طوالت کے خوف سے میں اسے یہیں ختم کرتا ہوں لیکن چلتے چلتے ایک بار پھر میں مسلم سلیم کی اردو ویب سائٹس اور ویب ڈائریکٹریز کا ذکر کروں گا اور یہ کہنے کی جسارت بھی کروں گا کہ اس کارنامہ کے سبب مسلم سلیم کو بابائے اردو مولوی عبدالحق کے پائے کی شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے۔
Sunday, 29 September 2013
Muslim Saleem – ghazal Sept 29, 2013
WO DOOR KAY HON DIWAANE, KE HON QAREEB KE LOG
HAIN MADHA-KHWAAN USI PAIKAR-E-AJEEB KE LOG
HAIN KAARZAAR KAI AUR BHI ZAMANAANE MAIN
HILAAL HI SAY ULAJHTAY HAIN KYOON SALEEB KE LOG
SARON KI GINTI NAY AAKHIR KIYA USAY RUSWAA
AMEER-E-SHEHR PAY BHAARI PADAY GHAREEB KE LOG
JAHAAN MAIN DHOOM HAI JINKI YARAF NIGAAHI KI
DIKHAYEE KYOON NAHEEN DETAY UNHEN QAREEB KAY LOG
GUL-E-KHAMOOSH KA DETAA NAHEEN HAI SAATH KOI
HAIN SAARE HAASHIYA-BARDAAR ANDALEEB KE LOG
NAZAR BACHA KAY HAM USDILRUBA SAY MIL AAYE
GALI MAIN GHOOMTAY PHIRTAY RAHE RAQEEB KAY LOG
WATAN SAY AAJ CHALAA HOON YE SOCH KAR MUSLIM
KAHEEN TOMUJH KO MILENGAY MERAY NASEEB KE LOG
Tuesday, 24 September 2013
Naqshband Qamar Bhopali ki manzoom tareekh "Hammasa" par ek taairna nazar: Muslim Saleem
نقشبند قمرؔ نقوی بھوپالی کی مایۂِ ناز تخلیق حمّاسہ جلد اوّل پر ایک طائرانہ نظر۔ مسلمؔ سلیم
تبصرے سے پہلے میں ایک وضاحت کردو کہ نقشبند قمرؔ نقوی بھوپال میں تولد ضرور ہوئے لیکن پاکستان ہجرت کرگئے اور اب ٹلسا، یو۔اس۔اے میں سکونت پذیر ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ وہ بھوپالی کہلا کر بھی اب بھوپالی نہیں ہیں جبکہ خادم بھوپال میں تولد نہ ہوکر بھی اب بھوپالی ہے۔ ایک اور اتفاق یہ ہے کہ منصب منزل جہاں نقشبند قمرؔ نقوی صاحب تولد ہوئے تھے میرے غریب خانے سے کچھ ہی فاصلے پر ہے اور میں دفتر آتے۔جاتے روز ادھر سے گذرتا ہوں۔ لیکن اس سے یہ عندیہ ہرگز نہیں لیا جائے کہ تبصرہ کا مقصد بھوپالیت یا ذاتی تعلقات سے ہے کیوں کہ میں آج تک نقشبند قمرؔ نقوی بھوپالی سے نہیں ملا ۔ان سے میری انٹرنیٹ ملاقات تب ہوئی جب میں نے ۳؍ برس پہلے کسی رسالے سے ان کی تصویر اور کلام لے کر اپنی ویب ڈائریکٹری ’’اردو پوئٹس انیڈ رائٹرز آف اردو ‘‘ میں شامل کرکے ان کو اس سے مطلع کیا تھا۔تب سے اب تک شاید کچھ ہی ای۔میل کا تبادلہ ہو ا ہوگا کہ اچانک ایک دن ان کی کتاب حماسہ کی پہلی جلد موصول ہوئی۔ میں نے اسکا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کتاب سے قارئین کو رو شناس کراؤں۔
تبصرے سے پہلے میں ایک وضاحت کردو کہ نقشبند قمرؔ نقوی بھوپال میں تولد ضرور ہوئے لیکن پاکستان ہجرت کرگئے اور اب ٹلسا، یو۔اس۔اے میں سکونت پذیر ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ وہ بھوپالی کہلا کر بھی اب بھوپالی نہیں ہیں جبکہ خادم بھوپال میں تولد نہ ہوکر بھی اب بھوپالی ہے۔ ایک اور اتفاق یہ ہے کہ منصب منزل جہاں نقشبند قمرؔ نقوی صاحب تولد ہوئے تھے میرے غریب خانے سے کچھ ہی فاصلے پر ہے اور میں دفتر آتے۔جاتے روز ادھر سے گذرتا ہوں۔ لیکن اس سے یہ عندیہ ہرگز نہیں لیا جائے کہ تبصرہ کا مقصد بھوپالیت یا ذاتی تعلقات سے ہے کیوں کہ میں آج تک نقشبند قمرؔ نقوی بھوپالی سے نہیں ملا ۔ان سے میری انٹرنیٹ ملاقات تب ہوئی جب میں نے ۳؍ برس پہلے کسی رسالے سے ان کی تصویر اور کلام لے کر اپنی ویب ڈائریکٹری ’’اردو پوئٹس انیڈ رائٹرز آف اردو ‘‘ میں شامل کرکے ان کو اس سے مطلع کیا تھا۔تب سے اب تک شاید کچھ ہی ای۔میل کا تبادلہ ہو ا ہوگا کہ اچانک ایک دن ان کی کتاب حماسہ کی پہلی جلد موصول ہوئی۔ میں نے اسکا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کتاب سے قارئین کو رو شناس کراؤں۔
Friday, 20 September 2013
Poets' tribute to Muslim Saleem's parents
POETIC
TRIBUTES TO MUSLIM SALEEM’S PARENTS BY DR. AHMAD ALI BARQI AZMI
(DELHI), ZIA SHAHZAD SHAHZAD (KARACHI) AND NAZAKAT ALI AAZIM (CHICAGO,
ILLINOIS) GRAPHICS COURTESY POET MOHD ALEEMULLAH KHAN WAQAAR
(SAHARANPUR-INDIA)
************************************
MERA SHER IS TARAH HAI
JIN SAY HAY YE WUJOOD, ZABAAN HAI, KALAAM HAI
UN DO AZEEM ROOHON KO MERA SALAAM HAI
**********************************
Zia Shahzad Shahzad (Karachi)
مسلم سلیم میرا بھی پہنچے انہین سلام
۔ ۔ ۔ بیشک عظیم روحوں کا جنت ہی ہے مقام ۔
************************************
MERA SHER IS TARAH HAI
JIN SAY HAY YE WUJOOD, ZABAAN HAI, KALAAM HAI
UN DO AZEEM ROOHON KO MERA SALAAM HAI
**********************************
Zia Shahzad Shahzad (Karachi)
مسلم سلیم میرا بھی پہنچے انہین سلام
۔ ۔ ۔ بیشک عظیم روحوں کا جنت ہی ہے مقام ۔
No comments:
Post a Comment