مسلم سلیم - ۲۱ویں صدی کا شاعر
از ڈاکٹر شہزاد رضوی۔۔۔۔سابق پروفیسر ، واشنگٹن ، ڈی ۔سی ، یو۔ایس ۔اے
میں ان کی شاعری کے اس جدید لب و لہجہ سے اس قدر متاثر ہواکہ میں نے انٹرنیٹ پر انگریزی میں مسلم سلیم کی شاعری پر نہ صرف سیر حاصل مضامین تحریر کئے بلکہ ان کی کئی غزلوں کا انگریزی ترجمہ ء کل انٹر نیٹ پر پوسٹ کیا۔ میں نے اپنے ۲۴ اپریل، ۲۰۱۱ کے مضمون Muslim Saleem and revelation of his art میں لکھا تھا ’’ اگر بین الاقوامی اردو حلقہ مسلم سلیم کی شاعری کا حظ اٹھانے سے محروم رہ گیا تو یہ ایک از حد شرمناک بات ہوگی۔ مسلم سلیم شاعری برائے شاعری کے قائل نہیں۔ اور تبھی قلم اٹھاتے ہیں جب ان کے سینے میں موجزن جذبات ان کو تحریک دیتے ہیں اور وہ گزشتہ نصف صدی اور موجودہ صدی کے بحرانات و تجربات کو اس تحریک کی کڑی میں خوبصورتی اورچابکدستی سے پروتے چلے جاتے ہیں۔مسلم سلیم کے اشعارکو سرسری طور پر لینے والا خواہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو اس کے عمق سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا۔ زندگی بھر اسٹڈی روم میں بیٹھ کر مطالعہ کرنے والے جو سرد و گرم زمانہ چشیدہ نہ ہوں مسلم سلیم کی شاعری کی depth تک پہنچنے میں ہو سکتا ہے کہ ناکام ہو جائیں لیکن ہم جیسے لوگ جو زبردست جدو جہد کے بعد امریکہ، یوروپ، اور دیگر بیرونی ممالک میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں، مسلم سلیم کے فن اورتجربے کی گہرائی کو مسmiss نہیں کر سکتے۔‘‘
اس سے قبل میں نے ۱۰ اپریل ،۲۰۱۱ کو تحریر کردہ اپنے مضمون Muslim Saleem:An Analysis میں مسلم سلیم کے بارے میں لکھا تھا۔
’’ مسلم سلیم کا تعلق اس نسل سے ہے جو آزادئ ہند کے فوراً بعد وجود میں آئی تھی ۔ تلاشِ ذات اس نسل کا سب سے اہم مسئلہ تھا اور اسکے لئے لمحہۂ فکریہ یہ تھا کہ برق رفتاری سے گزرتی جا رہی ۲۰ویں صدی میں وہ کیا اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہی وہ دور تھا جب مسلم سلیم پہلے علی گڑھ اور پھر الہٰ آباد یونیورسٹی میں اردو، عربی، فارسی، انگریزی اور ہندی کی اپنی صلاحیتوں کو جلاِ دے رہے تھے۔ تحصیل علم کے دوران ہی مسلم سلیم نے معاشرہ کی انہی نئی لہروں کی اپنی شاعری اور افسانوں کا ایجنڈا بنا لیا تھا۔ گزشتہ ۳۰ برس کو دوران انگریزی، اردو اور ہندی میں صحافت سے ان کے قلم کی کاٹ اور بھی گہری ہو گئی ہے۔‘‘
میں اس مضمون میں مسلم سلیم کے اشعارصرف چند اشعار نقل کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ آپ بھی میرے خیالات سے متفق ہو جائیں گے۔ مسلم سلیم کو استعاروں اور علامتوں پر جو عبور حاصل ہے اس سے ان کی شاعری ازحد تہہ دار ہوگئی ہے۔ ایک ہی شعر سے معنیٰ و مفہوم کے سوتے پھوٹے پڑتے ہیں۔
دھوپ میں دیوار بھی تھی کسکو تھا اسکا خیال۔۔۔۔۔ استفادہ ساےۂِ دیوار سے سب نے کیا
یہ اس شخص کے المیہ اور بے چارگی کا پر اثر بیان ہے جس سے ایک زمانہ مستفید ہوتا ہے لیکن یا تو اس ایثار سے بے خبر ہے یا دیدہ ؤ دانستہ اس کی داد نہیں دیتا کہ اس نے لوگوں کو آلام و مصائب سے محفوظ رکھنے کے لئے آفات و کرب کا کس قدر سامنا کیا ہے اور وہ بھی کوئی شکوہ زبان پر لائے بغیر۔احسان ناشناسی اور بے قدری ہمارے دور کا ایک بڑا المیہ ہے اور غزل کے دو مصرعوں میں اسے اتنی چابکدستی اور فنّی مہارت کے ساتھ نظم کرنے پر مسلم سلیم بے شک داد کے مستحق ہیں۔
بچوں کو ہونے دیجئے احساس دھوپ کا
نشو و نما نہ کیجئے، سایہ نہ کیجئے
ایک بار پھر دھوپ اور سایہ کی علامتیں ایک بہترین شعر کی تخلیق میں ممد ہوئی ہیں۔ جدوجہد اور تجربات و حوادث زندگی میں آگے بڑھتے رہنے اور اسے سنوارنے کے لئے از حد ضروری ہیں۔ ضرورت سے زیادہ پدری یا مادری شفقت میں پلنے والے بچے زندگی میں ذہنی و شخصی ارتقاء کی کئی منازل طے کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس لئے تجربے ان کے لئے تریاق اور سایہ سنگِ راہ ہے۔ یہ مضمون غزل کے پیرائے میں مسلم سلیم سے پہلے کسی نے نہیں باندھا ہے۔
تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گے۔۔۔۔۔ میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی
اس شعر میں دھوپ کا لفظ تو نہیں لیکن اس کا شدید احساس موجود ہے۔ سایہ اور دیوار مل کر پھر جادو جگاتے ہیں اور ایک المیہ اے حسین پیرائے میں بیان ہو جاتا ہے۔ شاعر ایک ایسے شخص کی کیفےئات کو بیان کرتا ہے جو مسلسل طور پر اخوت، شفقت، دوستی اور کرم سے محروم ہے۔ یہ احساسِ محرومی تب اور بھی بڑھ جاتا ہے جب وہ کسی ایسے شخص کی طرف بڑھنے کی سعی کرتا ہے جس میں یہ اوصاف پائے جاتے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ وہ اس شخص سے کچھ استفادہ کر سکے وہ شخص کوچ کر جاتا ہے اور طالبِ فیض تشنہ کا تشنہ رہ جاتا ہے۔
سائباں ساتھ کس کے چلے ہیں ۔۔۔۔۔پھر وہی دھوپ تھی، قافلہ تھا
قافلۂِ ذات کو تجربات و حوادث کی تیز دھوپ میں چلتے ہی رہنا پڑتا ہے کیونکہ محافظت اور تسکین دینے والے ایک حد تک ہی ساتھ دے سکتے ہیں اور رہگزارِ زیست میں ان سے صرف اسی قدر مستفید ہوا جاسکتا ہے جس طرح راہ میں کوئی سائبان یا کوئی سایہ مل جائے اور انسان کچھ دیر وہاں رک کر آرام کر لے۔ آگے کا سفر تو اسے سائبان سے آگے بڑھکر صعوبتوں اور دشواریوں کو جھیل کر ہی طے کرنا پڑیگا۔
یہ اشعار میں نے مسلم سلیم کے گذشتہ مجموعہ آمد آمد سے لئے تھے۔ اب میں ان کے زیرِ نظر مجموعہ سے منتخب چند تاریخ ساز اشعار کی نشاندہی کر رہا ہوں۔
بہار لائے تھے یہ انکا احترام کرو۔۔۔۔خزاں رسیدہ درختوں کو بھی سلام کرو
پاس ہو کے بھی ہم سے وہ خفا خفا سا ہے ۔۔۔۔۔دوریاں ہیں میلوں کی فاصلہ ذرا سا ہے
رنگ آتے جاتے ہیں کتنے اسکے چہرے پر۔۔۔۔۔حسن اسکا اب دیکھو جب کہ وہ خفا سا ہے
اس لئے جیت کر ہر اک میداں بڑھ گئے رزم گاہ سے آگے۔۔۔۔ہم نے اپنی نگاہ رکھی تھی دشمنوں کی نگاہ سے آگے
پہلے تھا ملک میں بس اک ظالم سب جسے بادشاہ کہتے تھے۔۔۔۔اب تو اپنے ہیں سینکڑوں آقا ظلم میں عالی جاہ سے آگے
کس قدر پانی ہے پہلے اس کا اندازہ کیا۔۔۔۔۔بند پھر اپنی مدد کا اس نے دروازہ کیا
دہکتی ریت پر پھر میں نے دیکھا۔۔۔۔سمندر میری ٹھوکر سے نکلنا
قوم کی زبوں حالی پر بھی مسلمؔ سلیم نے بے حد چابک دستی سے روشنی ڈالی ہے:۔
یاد ہے سارا جہاں بھول گئے ہیں خود کو۔۔۔۔۔سوچتے ہیں کہ کہاں بھول گئے ہیں خود کو
جیت لے گا ہمیں دشمن بڑی آسانی سے۔۔۔۔۔ہو گیا سب پہ عیاں بھول گئے ہیں خود کو
زیرِ نظر مجموعے میں مسلمؔ سلیم نے دہشت گردی کے خلاف کافی موثر اشعار شامل کئے ہیں۔یہاں میں اس موضوع پر انکی ایک مکمل غزال نما نظم نقل کر رہا ہوں:
ہو اگر عاجز تو پھر حاجت روا بنتے ہو کیوں۔۔۔۔کام ہے یہ تو خدا کا تم خدا بنتے ہو کیوں
درسِ رحمت بھول کر کیوں بن گئے بیدادگر۔۔۔۔۔سب کے حق میں پیکرِ جوروجفا بنتے ہو کیوں
ہر قدم کج فہمیاں ہیں، ہر قدم گمراہیاں۔۔۔۔۔حق شناس و حق نگر اور حق نما بنتے ہو کیوں
ہو اگر مقدور رکھّو ساتھ کوئی راہبر۔۔۔۔۔راہ گم گشتہ عزیزو! رہمنا بنتے ہو کیوں
فرض مسلمؔ پر قیامِ امن ہے یہ جان لو ۔۔۔۔۔۔یوں کھلونا بے جہت جذبات کا بنتے ہو کیوں
اسی موضوع پر چند اور اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ جانے کس جگہ مل جائے دہشت۔۔۔۔دعائیں پڑھ کے سب گھر سے نکلنا
بھرے گا پیکرِ تصویر میںِ خوں ۔۔۔۔۔محبت کا وہ منظر سے نکلنا
بہشت ملتی ہے دہشت سے اور تشدّد سے ۔۔۔۔۔نکال ڈالے دماغوں سے یہ سنک کوئی
اڑا کے اوروں کو خود کو بھی مار لیتے ہیں۔۔۔۔۔وہ سوچتے ہیں کہ اس میں ثواب ہوتا ہے
اے کشت و خون کے داعی ذرا بتا تو سہی ۔۔۔۔۔کہ ان دھماکوں سے کیا انقلاب ہوتا ہے
اس مجموعہ میں رومانی شاعری اور قطعات کی شمولیت بھی معنی خیز ہے کیونکہ پہلے مجموعے میں ان کی تعداد برائے نام تھیْ وہ مجھ کو سمجھنے میں جو ناکام رہا ہے ۔ ۔۔۔ ۔ خود مجھ پہ ہی اس جرم کا الزام رہا ہے
یہ جسم کرتا ہے اکثر بہت سوال تر۱ ۔۔۔ ۔۔ رگوں میں دوڑنے لگتا ہے جب خیال ترا
قدم بچا کے رکھوں میں اگر تو کیسے رکھوں ۔ ۔۔۔ہر ایک سمت تو پھیلا ہوا ہے جال ترا
تب مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے مخمل یاد کا ۔۔ ۔۔۔ سر پہ جب سایہ فگن ہوتا ہے بادل یاد کا
جان و دل میں جب مہک اٹھتا ہے صندل یاد کا۔۔۔۔ سو غموں کو دور کر دیتا ہے اک پل یاد کا
آج صندوق سے دیرینہ زمانے نکلے ۔۔۔۔۔ڈائری کھولی تو یادوں کے خزانے نکلے
ایسے ماضی کی پھواروں میں شرابور ہوئے۔۔۔۔ جیسے بچہ کوئی بارش میں نہانے نکلے
رات بھر چنتے ہیں اکثر لعل و گوہر خواب کے۔۔۔صبحدم روتے ہیں ہم ٹکڑے اٹھا کر خواب کے
خواب کی جانب چلے پیغام لے کر خواب کے۔۔۔۔یوں اڑے دل کی منڈیروں سے کبوتر خواب کے
جان و دل اپنے ہیں صدقے اس منور خواب کے ۔۔۔۔۔جاگتی آنکھوں میں رہنے دو وہ منظر خواب کے
مسلم سلیم نے مغربی ممالک اور میڈیا کی فحاشی اور غلط بیانی کا راز بھی فاش کیا ہے:
مغربی بازاریت کی دین یہ ہیجان ہے۔۔۔۔۔حسنِ نسواں اب فقط تفریح کا سامان ہے
مکر آرائش ہے اسکی،جھوٹ اسکی شان ہے۔۔۔۔۔مت بہک جانا، یہ گورا میڈیا شیطان ہے
خود تو گویا قتل و غارت، ظلم سے انجان ہے۔۔۔۔۔ ہر برائی کے لئے اسلام پر بہتان ہے
اُس کی ہرزہ گوئیوں پر مہرِ استحسان ہے ۔۔۔۔۔۔ ہم نے گر کچھ کہہ دیا تو ہر طرف طوفان ہے
حق پہ جینا ، حق پہ مر مٹنا ہی اسکی شان ہے۔۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے دہر میں مسلم ہی بس انسان ہے
مسلم سلیم کا تقریباً ہر شعر ایسی ہی تہہ داریوں سے مملو ہے اس کے لئے ایک علیحدہ کتاب درکار ہے اور اس مضمون کی طوالت کے خوف سے میں اسے یہیں ختم کرتا ہوں لیکن چلتے چلتے ایک بار پھر میں مسلم سلیم کی اردو ویب سائٹس اور ویب ڈائریکٹریز کا ذکر کروں گا اور یہ کہنے کی جسارت بھی کروں گا کہ اس کارنامہ کے سبب مسلم سلیم کو بابائے اردو مولوی عبدالحق کے پائے کی شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment