Saturday, April 23, 2011

Nazm” Subhe Nau” By Syed Zia Khairabadi


صُبح نو

)اُس صُبح کے نام جِس کا   شاید ہماری قوم کوا یک مُدّت سے انتظار ہے(

صُبح نو کا سورج طلوع ہونے والا ہے

تُم یہ دیکھوگے کہ ہر سِمت اُجالا ہوگا

رات کی سیاہی جب چھٹ جائے گی ذہن و دِل سے

ہر طرف روشنیوں کا بول بالا ہوگا

غربت و افلاس کے پھیلے ہوئے کالے بادل

خود بخود چھٹ جا یں گے جب سورج کی کِرن آئے گی

زندگی جو اب تک مفلوج تھی ایک مُدّت سے

وہ بھی ایک نئے عزم کی طاقت سے اُٹھ جائے گی

پھِر فِیضاوں میں گونجیں گے مُحبّت کے نغمیں

پھِر خوشی ہر گھر کی چو کھٹ پہ نظر آئے گی

مُند مِل ہو جا یں گے جو  زخم لگے کانٹوں سے

زندگی ہر شخص کے پہلو میں سِمٹ آئے گی

تقدسِ نِسواں نہ کبھی پامال ہونے پائے گی

رحِلِ دِل پہ  رہے گی یہ مُقدّس کِتابوں کی طرح

یہ فیصلے طے پایں گے ہر ایک مِلّت میں

پُختہ عزم اور مضبوت اِرادوں کی طرح

نو جوانوں میں بڑ ھتے ہوئے نشے کا رُجہان

میں نے مانا  کوی   بھی اِس کی   وجہہ ہو سکتی ہے

پر یہ وہ دلدل ہے کہ جِس میں پھنس جائے تو نِکلنا مُشکل

ایسی دلدل میں اگر پھنس جائے تو ایک قوم تباہ ہو سکتی ہے

نشے کی جا نِب نہ بڑھیں گے اب نو جوانوں کے قدم

جو اِس دلدل میں پھنسے ہیں وہ نِکل آیں گے

اپنی کھوئ ہوئ طاقت اور توانائ کو یکجا کرکے

وہ مُلک وقوم کی ترقی میں جُٹ جا یں گے

چھوٹے بچّے ماں باپ کی کِفالت کی لئے بوجھل گٹھری

شہر کے فُٹ پا تھوں پر نہ بھٹکینگے نہ نظر آیں گے

ننھے بچّے جو مُلک و قوم کا بہترین سرمایہ ہیں

گھر سے نِکلیں گے تو پھِر  اِسکولوں کی طرف جا یں گے

عدالتیں سچّائ اور اِنصاف کا گھر ہوں گی

پھِر کوئ بے گُناہ پھانسی پر  چڑ ھے گا نہ کبھی

پھِر نہ مِل پایں گے جھوٹے گواہ بازاروں میں

پھِر کو ئ معصوم جیلوں میں سڑھے گا نہ کبھی

خونِ اِنسانی  اب اور نہ سستا ہوگا

پھِر دُکانوں پر کِسی جان کا نہ سودا ہوگا

پھِر سڑکوں پر بہے گا نہ کِسی  بے کس کا لہو

جہز کے نام پر نہ جلائ جائے گی پھِر کوئ بہو

مذہب کے نام پر اب کوئ لفڑا نہیں ہونے والا

رام کا رحمان سے جھگڑا نہیں ہونے والا

ہر شخص یہ چا ہے گا   کہ اب یہ تکرار ٹلے

سب جمع ہو جایں گے جب ایک ہی پر چم گے تلے

پھول کھلیں گے  پھِر   اِس چمن کے آنگن میں

پھِر نہ کوئ خار کبھی پیدا ہوگا

لوگ نِکل آیں گے مایوسیوں کی دلدل سے

ایک نئے عزم سے اعتبار جو پیدا ہوگا

بھول جایں گے وہ ماضی کی تلخ یادوں کو

تر قیوں کی طرف رواں اُن کا کارواں ہوگا

وہ حو صلے جو سا کِت تھے بند پانیوں کی طرح

اب اُن کا جوش بمِثل آبِ رواں ہوگا

پھِر پھول کھِلیں گے گُلشن میں چاروں طرف ہریالی ہوگی

جب ہر دِل میں مُحبّت بھر جائے گی تب دُنیا نفرت سے خالی ہوگی

خواب  جو دیکھے تھے کبھی اقبال اور سر سیّد نے

اُن خوابوں کو حقیقت بھی بنانا ہوگا

ایک مُدّت سے سوئ ہوئ اِس مِلّت کو

گہری نیندوں سے بہر حال جگانا ہوگا

نہرو اور گاندھی کے پُر عزم اِرادوں کی طرح

اپنی سو چوں کو بھی مضبوت بنانا ہوگا

اپنے کھیتوں میں نیئ فصلیں اُگانے کے لئے

بنجر زمینوں کو بھی زرخیز بنانا ہوگا

اُٹھو کہ وقتِ سحر ہے نیند کا خُمار کیوں ہے

سورج طلوع ہو چُکا ہےاب اور انتِظار کیوں ہے

SYED ZIA KHAIRABADI

ATLANTA GEORGIA USA

No comments: